لندن کے ڈاکٹروں، نرسوں اور ماہرینِ نفسیات نے خبردار کیا ہے کہ نفسیاتی بحران کے شکار افراد کو پولیس کے بجائے محکمۂ صحت کے عملے کے ذریعے روکنے اور حراست میں لینے کا منصوبہ ’خطرناک‘ ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ بات سابق وزیرِاعظم تھریسامے کی انگلینڈ اور ویلز کے لیے پیش کردہ ایک قانونی تجویز کے تناظر میں سامنے آئی ہے جس کا مقصد ان افراد کے ساتھ سلوک کے طویل المدتی طریقہ کار کو تبدیل کرنا ہے جو اپنی ذہنی صحت کی خرابی کی وجہ سے خود یا دوسروں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
طبی گروپس ایمبولینس لیڈرز اور سماجی خدمت کے اداروں کے اتحاد کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی ذہنی صحت کے عملے کو خطرے میں ڈال دے گی اور ان کے نازک مریضوں کے ساتھ تعلقات کو متاثر کرے گی۔
یہ تنازع 2023ء میں میٹروپولیٹن پولیس کے اس فیصلے کی یاد دلاتا ہے جس میں ذہنی صحت سے متعلق 999 کالز پر جواب دینے سے انکار کر دیا گیا تھا سوائے اس صورت کے جب کسی کی زندگی کو فوری خطرہ ہو، اگرچہ پولیس کا کہنا تھا کہ اس تبدیلی سے چوری جیسے جرائم پر تیزی سے کارروائی ہو سکے گی لیکن ذہنی صحت کے کارکنوں کو خدشہ تھا کہ اس سے اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
تھریسامے نے سابق صحت کے وزراء سید کمال اور فریڈرک کزرن کے ساتھ پارلیمنٹ میں ذہنی صحت بل میں ترمیم کی تجویز پیش کی ہے، اگر یہ منظور ہو گئی تو ذہنی صحت سے تعلق رکھنے والا طبی عملہ، ماہرین نفسیات اور دیگر مجاز طبی پیشہ ور افراد کو مینٹل ہیلتھ ایکٹ کے تحت مریضوں کو روکنے اور حراست میں لینے کی اجازت ہو گی۔
یاد رہے کہ فی الحال یہ اختیار صرف پولیس افسران کے پاس ہے کہ وہ نفسیاتی بحران (مثلاً پاگل پن کے دورے) کے دوران مریض کو حراست میں لے سکتے ہیں۔
رائل کالج آف سائیکاٹرسٹس، رائل کالج آف نرسنگ اور برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن سمیت آٹھ گروپس نے ایک مشترکا بیان میں کہا ہے کہ ان حالات میں پولیس کی موجودگی ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو مکمل طور پر نکال دینے کے سنگین خطرات ہیں، کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونا بڑے خطرے کا باعث ہے اور اس وقت پولیس کی معلومات اس خطرے کو کم کرتی ہیں، پولیس کی مدد کے بغیر، پیشہ ور افراد ایسے گھروں میں داخل ہو سکتے ہیں جہاں انہیں اپنی حفاظت کے لیے ضروری معلومات تک رسائی نہیں ہوگی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم پولیس کی دباؤ والی صورتحال کو سمجھتے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ معاشرے میں ذہنی بحران دن بہ دن شدید ہوتا جا رہا ہے اور تقریباً ہمیشہ کسی نہ کسی خطرے کا عنصر شامل ہوتا ہے، بحران کے شکار افراد تک محفوظ طریقے سے پہنچنے کے لیے پولیس کی مہارت، صلاحیت اور ساز و سامان ضروری ہے، خاص طور پر جب خود مریض، دوسروں یا کسی اور سے خطرہ محسوس کر رہا ہو۔
رائل کالج آف سائیکاٹرسٹس کی صدر ڈاکٹر لیڈ اسمتھ کا کہنا تھا کہ کسی کو حراست میں لینا یا روکنا تقریباً اسے گرفتار کرنے کے برابر ہے، یہ کام محفوظ طریقے سے کرنے کے لیے خصوصی مہارت اور قانونی اختیار درکار ہوتا ہے، طبی عملہ جن کا بنیادی کام علاج کرنا ہے، وہ عوامی مقامات پر لوگوں کو گرفتار کریں یا ان کے گھروں میں داخل ہوں تو یہ بالکل نامناسب ہے۔ یہ صحت کے کارکنوں کے فرائض کی غلط تشریح ہے۔
نیشنل پولیس چیفس کونسل کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہم ذہنی صحت بل میں ترمیم کی حمایت کرتے ہیں جو طبی پیشہ ور افراد کو کچھ نفسیاتی واقعات سنبھالنے کا اختیار دے گی، اس سے یہ یقینی بنے گا کہ کمزور افراد کو مناسب دیکھ بھال ملے گی، بغیر اس کے کہ ان کے ذہنی مسائل کی وجہ سے انہیں مجرم سمجھ لیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہمیشہ ان واقعات پر پہنچیں گے جہاں کسی کی جان کو شدید خطرہ ہو، پیشہ ور افراد کو خطرہ ہو یا جہاں مجرمانہ سرگرمی شامل ہو۔
اس منصوبے کی مخالفت کرنے والوں میں رائل کالج آف ایمرجنسی میڈیسن (ایمرجنسی ڈاکٹرز)، کالج آف پیرامیڈکس، ایمبولینس ایگزیکٹوز کی ایسوسی ایشن، برٹش ایسوسی ایشن آف سوشل ورکرز اور ڈائریکٹرز آف ایڈلٹ سوشل سروسز شامل ہیں۔
لیبر ایم پی روزینا الن خان، جو پارٹی کی سابق شیڈو کابینہ وزیر برائے ذہنی صحت اور خود ایک ایمرجنسی ڈاکٹر ہیں نے بھی ان ترامیم پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔