• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

لارنس گارڈن اور اس کے قریب فائیو اسٹار ہوٹل والی جگہ یہ کسی زمانے میں مہاراجہ پٹیالہ کی شکار گاہ تھی۔ بہرحال مہاراجہ پٹیالہ کی چند ایک کوٹھیاں آج بھی ہیں وہ اب جی او آر ون میں شامل ہو چکی ہیں ۔ماضی کا یہ خوبصورت علاقہ اب ویسا نہیں رہا ہم پچھلے ہفتے لارنس اور منٹگمری ہال کی بات کر رہے تھے۔سرجان لارنس کے بعد سررابرٹ منٹگمری پنجاب کے دوسرے لیفٹیننٹ گورنر مقرر ہوئے یاد رہے اس وقت پنجاب بہت بڑا علاقہ تھا جس میں مغربی پنجاب اور مشرقی پنجاب دونوں شامل تھے۔ موجودہ قائداعظم لائبریری اور ماضی کا جمخانہ کلب کے دونوں ہال لاہور کے مخیر حضرات نے چندہ اکٹھا کرکے تعمیر کرائے تھے۔لاہوریوں نے گوروں کے ساتھ زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ کیا تھا۔ لارنس گارڈن کا نام اور لارنس کا مجسمہ دونوں سر لارنس جان کی یاد میں تعمیر کئے گئے تھے ۔سرجان لارنس کا مجسمہ کبھی لاہور ہائیکورٹ کے قریب نصب تھا پھر اس مجسمے کو وہاں سے اتار دیا گیا اب لاہور میں صرف ایک مجسمہ پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے باہر نصب ہے جو پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ان کا نام ALFRED WOOLNER تھا ۔

لارنس اور منٹگمری ہال دونوں کو ایک راہداری کے ذریعے آپس میں ملا دیا گیا ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ہالز کے اردگرد کمروں کو ان کی اصل شکل وصورت میں برقرار رکھا جائے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس عمارت میں کئی جگہوں پر اینٹ لگا کر عمارت کی خوبصورتی کو تباہ کر دیا گیا ہے اور بے ڈھنگے انداز میں پلستر کر دیا گیا ہے جب اس عمارت میں جمخانہ کلب تھا اس وقت اس عمارت کی شکل وصورت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی مگر افسوس ہم ہر تاریخی عمارت اور یادگار کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس مرتبہ ہم کافی مدت کے بعد منٹوپارک (اقبال پارک) چلے گئے۔منٹوپارک بڑی تاریخی جگہ ہے آئیے ہم آپ کو وہ منٹوپارک دکھاتے ہیں جس منٹوپارک میں ہم ایک مدت تک بیڈمنٹن کھیلتے رہے ۔لاہور شہر جس کو کبھی باغات کا شہر کہا جاتا تھا آج کنکریٹ، سریا، سیمنٹ، شیشے کا ایک بدصورت شہر بن چکا ہے اس شہر کی پلاننگ کرنے والے کسی بھی ماہر کو AESTHETIC SENSE نہیں پھر شہر لاہور کو خوبصورت بنانے والے اداروں میں وہ بیوروکریٹس گھس گئے جنہیں اس شہر بے مثال کی قدر اور اس کے بارے میں کوئی علم نہ تھا ان لوگوں نے اپنی دیہاڑیاں لگانے کے لئے اس شہر باکمال کو شہر بدنما بنا ڈالا۔ آج بڑے میاں صاحب یعنی نواز شریف اور ان کے پی ایس او وقار اس شہر کو پرانا والا لاہور بنانا چاہتے ہیں اور ہم ان کی نیک خواہشات کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔مگر ایک سوال بڑے میاں صاحب سے یہ ہے کہ جس جس محکمے کے جس جس افسر اور بابو نے تجاوزات اور بڑے بڑے بدصورت پلازوں کے نقشے پاس کئے آخر لاہور کے چودہ دروازوں کے اندر جو قدیم، تاریخی حویلیاں اور چھوٹی اینٹ کے پرانے مکانات کو گرا کر پٹھانوں نے جو پلازے بنائے ہیں وہ کسی محکمے کی اجازت سے ہی تعمیر کئے ہوں گے حکومت کو کارروائی تو تجاوزات سے زیادہ ان محکموں کے افسروں کے خلاف کرنی چاہئے جنہوں نے نقشے پاس کئے پانی، بجلی اور سوئی گیس کے کنکشن دیئے اور ایکسائز ڈیپارٹمنٹ جو ان سے پراپرٹی ٹیکس وصول کرتا رہا جس کی بنا پر وہ اپنے آپ قانونی مالک بن چکے ہیں۔

ہم بات کر رہے تھے کہ لاہور جو باغات کا شہر تھا اس کا حلیہ بگاڑ دیا۔ لاہور شہر میں سکھوں نے بے شمار باغات تعمیر کئے تھے سکھوں نے زیادہ تر حویلیاں تعمیر کیں اور انگریزوں نے یہاں پر کئی خوبصورت تعمیرات کی تھیں ہم اس شہر کی ان تمام تاریخی حویلیوں، باغات اور مقبروں کی حفاظت بھی نہیں کر سکے جو یہاں پر پہلے سے موجود تھیں ۔

بات ہو رہی تھی منٹو پارک کی اور میاں نواز شریف بھی یہ چاہتے ہیں کہ منٹوپارک کی تمام پرانی روایات زندہ ہوں منٹوپارک لاہور کا واحد پارک ہے جس نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو کئی نامور کھلاڑی دیئے ۔منٹوپارک ناصرف ایک تاریخی،ثقافتی بلکہ ادبی بیٹھکوں کی بھی ایک جگہ تھی ہمیں یاد ہے کہ جب ہم یہاں 1972ء میں بیڈمنٹن کھیلنے آتے تھے تو اس گرائونڈ میں کہیں پر کرکٹ، کہیں پر ہاکی، کہیں فٹ بال، کہیں پر کشتیوں کے اکھاڑے میں پہلوان کسرت کر رہے ہوتے تھے کہیں پر بیڈمنٹن کہیں باڈی بلڈنگ کلب اور پارک کےایک حصےپر پرانے لاہوریئے پتنگ بازی کا مقابلہ کر رہے ہوتے تھے ۔کیا دور تھا ہر عمر کے افراد اس منٹوپارک میں موجود ہوتے تھے کہیں پر بوڑھے لوگ ہیروارث شاہ اور ایک طرف قصہ گو بیٹھے ہوتے تھے حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی نوجوان لڑکی یا خاتون کو ہم نے کبھی منٹوپارک میں نہیں دیکھا تھا منٹوپارک میں ایک سوئمنگ پول تھا جو بڑا خطرناک تھا وہاں ہر سال ایک نوجوان ضرور ڈوب جایا کرتا تھا ۔

لاری اڈا اور سبزی منڈی قریب ہونے کے باوجود یہاں پر آلودگی کا نام ونشان نہ تھا اس لاہور کے حسن کو پہلے ویگن کلچر نے برباد کیا پھر اب چنگ چی رکشا نےپورے لاہور کا ستیا ناس کر دیا ہے ہمیں اور بہت سارے لاہوریوں کو بھی یاد ہو گا کہ حکومت نے تانگے اس بنیاد پر ختم کئے تھے کہ اس سے گند پیدا ہوتا ہے۔ ٹریفک خراب ہوتی ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور سے تانگوں اور گوالوں کو اس لئے ختم کیا گیا تھا کہ شہران کی وجہ سے آلودہ ہو رہا تھا اب بھلا کوئی ان ماہرین اور حکومت سے پوچھے کہ اب لاہور شہر کی فضا بڑی صحت مند ہو گئی ہے۔ لاہور اس وقت دنیا میں آلودگی میں نمبر2پر ہے۔پہلے تو لاہوریوں کو صرف پانی ملا دودھ ملتا تھا یا جو لوگ اپنے سامنے دودھ لیتے تھے ان کو خالص دودھ مل جاتا تھا اب تو آپ کو کیمیکل والا دودھ مل رہا ہے جس سے کینسر ہو رہا ہے۔ ڈی جی فوڈ اتھارٹی محمد عاصم اور ڈائریکٹر ڈاکٹر ہشام چھاپے مار مار کر تنگ آ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود لاہور میں کھانے پینے کی اشیاء انتہائی ناقص ہو چکی ہیں۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی اگر نہ ہوتی تو آج پورے شہر کے ہر ہوٹل اور کھانے پینے کی دکان سے انتہائی ناقص اور زہرآلودہ اشیاء مل رہی ہوتیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین