انصار عباسی
اسلام آباد :…پہلی مرتبہ یہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے جنہوں نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی توجہ خاتون اول بشریٰ بی بی کی کرپشن کی طرف مبذول کرائی تھی۔ وہ ان کے پاس ایک فولڈ لیکر پہنچے تھے جس میں مبینہ کرپشن کی تفصیلات موجود تھیں۔ تاہم، عمران خان نے اسے مسترد کرتے ہوئے باجوہ سے کہا، ’’بشریٰ بی بی میری ریڈ لائن ہے۔‘‘ اس بات چیت سے واقف ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ عمران خان نے فولڈر کے مواد کو یکطرفہ کہہ کر مسترد کر دیا۔ جب باجوہ نے عمران خان سے کہا کہ بشریٰ بی بی کے ساتھ جن لوگوں (جن میں فرح گوگی، سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور دیگر) کے روابط ہیں ان پر غور کرنے کا کہا تو عمران خان نے ایک مرتبہ پھر یہ بات دہرائی کہ بشریٰ بی بی کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی۔ بعد ازاں، اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی (موجودہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر) نے وزیراعظم عمران خان کو انہی الزامات کے حوالے سے بریفنگ دینے کی کوشش کی۔ یہ بات عمران خان کو اچھی نہ لگی۔ انہوں نے 24؍ گھنٹوں کے اندر ہی جنرل باجوہ کو فون کیا اور جنرل عاصم منیر کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ ذرائع کے مطابق، باجوہ نے عمران خان کو منانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانے اور عاصم منیر کو تبدیل کرنے پر ڈٹے رہے۔ عمران خان نے جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنانے کی تجویز دی، حالانکہ وزیراعظم کو اس عہدے کیلئے جو نام تجویز کردہ پینل میں بھیجے گئے تھے اُن میں فیض حمید کا نام سرے سے تھا ہی نہیں۔ جس وقت عاصم منیر کو ہٹانے کیلئے عمران خان اصرار کر رہے تھے، اس وقت جنرل باجوہ نے انہیں مشورہ دیا کہ کم از کم احترام اور پروٹوکول کے اظہار کے طور پر سید عاصم منیر کو چائے کیلئے مدعو کیا جائے۔ لیکن عمران خان نے ایسا نہیں کیا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) پر عمران خان نے حالیہ بیان میں تصدیق کی ہے کہ انہوں نے جنرل عاصم منیر کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ بعد ازاں، ثالثوں کے ذریعے جنرل عاصم نے بشریٰ بی بی سے رابطے کی کوشش کی لیکن خاتون اول نے اُن سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ عمران خان نے بتایا کہ یہ ثالث کون تھے اور نہ ہی کسی آزاد ذریعے سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہ بیان عمران خان کے سابقہ بیانات سے بالکل مختلف ہے۔ مئی 2023ء میں ٹیلی گراف میں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ جنرل عاصم منیر کو اس لیے برطرف کیا گیا تھا کہ انہوں نے بشریٰ بی بی اور ان کے قریبی حلقوں کی کرپشن کی تحقیقات کی کوشش کی تھی۔ تاہم، عمران خان نے واضح طور پر ٹیلی گراف میں شائع اس خبر کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ یہ مکمل طور پر غلط ہے۔