اللہ کو جان دینی ہے، جب بھی میں چین جاتا ہوں، جمہوریت پر میرا ایمان ڈگمگا جاتا ہے۔ کون سا کارنامہ ہے جو چین نے انجام نہیں دیا اور کون سا مغالطہ ہے جو چین نے دور نہیں کیا! یہ اکیلا معجزہ ہی کافی ہے کہ 1978سے لے کر اب تک، چین نے اَسّی کروڑ افراد کو غربت کی دلدل سے باہر نکالا ہے، اور یہ اعداد و شمار سرکاری نہیں بلکہ ورلڈ بینک کے ہیں۔اِس کے علاوہ چین نے کئی ایسی باتوں کو بھی غلط ثابت کیا ہے جن کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، مثلاً چین غالباً واحد ملک ہے جس نے بیک وقت سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم کے ہائبرڈ نظام کو کامیابی سے چلا کر دکھایا ہے، کرپشن اور وی آئی پی کلچر کے باوجود چین کی معیشت بگٹٹ ترقی کر رہی ہے اور ڈیڑھ ارب کی آبادی ملک پر بوجھ نہیں بلکہ اثاثہ ہے اور چین نے اُسے ایسے کنٹرول کر رکھا ہے کہ کسی کی جرات نہیں کہ چوں بھی کر سکے۔ یہ وہ چند مغالطے ہیں جو چین نے دور کیے ہیں۔ اِس سے پہلے کہ میں مزید کچھ لکھوں، یہ دو ٹوک وضاحت ضروری ہے کہ میں کسی آمرانہ یا ہائبرڈ نظام کی توجیہہ پیش نہیں کر رہا لہٰذا وجاہت مسعود اِس فقیر کی سرزنش میں کوئی مضمون باندھنے سے پرہیز کریں، تاہم اگر وہ لکھنا چاہیں تو مجھے بے حد خوشی ہوگی کیونکہ وہ تنقید کرنے سے پہلے اتنی زیادہ تعریف کر دیتے ہیں کہ تنقید کا ڈنک ہی نکل جاتا ہے۔
جس ناقابل یقین انداز میں چین نے عوام کی کایا کلپ کی ہے اُس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ چین کے وہ شہر جہاں پچیس تیس سال پہلے ڈھنگ کا بازار نہیں ہوتا تھا وہاں اب فلک بوس عمارتیں ہیں اور میٹرو ٹرینز کا جال بچھا ہے۔ کسی سڑک پر کوئی شخص بھیک مانگتا نظر نہیں آتا، چھوٹے چھوٹے بچے ٹریفک سگنلز پر ہاتھ پھیلا کر کھڑے نہیں ہوتے، چوک میں برقع پوش عورتیں شیر خوار بچوں کو گود میں لے کر دودھ کے پیسے نہیں مانگتیں، اور معذور افراد گھسٹ گھسٹ کر گاڑیوں کے شیشے نہیں کھٹکھٹاتے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ چین میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں، یقیناً اب بھی وہاں ضرورت مند اور غریب لوگ ہوں گے مگر اُن کا جو حال پچّاس اور ساٹھ کی دہائی میں تھا اب وہ نہیں رہا، وہ لوگ جنہیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا، آج اُن لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب آ چکا ہے۔
چین پہنچ کر کچھ باتیں ایسی ہیں جو فوراً محسوس ہوتی ہیں۔ پہلی، دستاویزی معیشت۔ پورا چین وی چیٹ پر چل رہا ہے، میں نے بھی چین جانے سے پہلے وی چیٹ پر اپنا اکاؤنٹ بنا لیا تھا مگر یہ اتنا آسان نہیں تھا جتنا وٹس ایپ ہے جو آپ کا درست نام جاننے کی بھی زحمت نہیں کرتا۔ اِس کے برعکس وی چیٹ آپ کی مکمل تصدیق کرتا ہے، جب تک دو شریف آدمی، جن کا پہلے سے وی چیٹ پر اکاؤنٹ ہو، آپ کی ضمانت نہ دیں اکاؤنٹ نہیں کھلتا۔ اِسکے بعد اگر آپ نے وی چیٹ کے ذریعے کوئی خریداری کرنی ہے اور اسے بطور بینک اکاؤنٹ بھی استعمال کرنا ہے تو شناخت کو مزید پکا کرنے کیلئےپاسپورٹ یا شناختی کارڈ بھی اپ لوڈ کرنا ہو گا۔ چین میں اگر کوئی ریڑھی والا بھی ہے تو اُس نے بھی وی چیٹ کا کیو آر کوڈ اسکین کرکے ٹانگ رکھا ہے۔ یوں سمجھیں کہ ڈیڑھ ارب کی آبادی ایک ایپ کے ذریعے جُڑی ہوئی ہے، کس نے کیا خریدا، کس سے خریدا، کس کو پیسے بھیجے، کس سے وصول کیے، کون سی بس پر سوار ہوا، کون سی ٹرین اور کس جہاز سے کہاں گیا، پورا اعمال نامہ اِس وی چیٹ میں محفوظ ہے۔ جی ہاں، آپ نقدی سے بھی یہ کام کر سکتے ہیں مگر چینی عوام اور معاشرے میں وی چیٹ اور اِس سے ملتی جلتی ایک دوسری ایپ ”علی پے‘‘ اِس قدر رچ بس چکی ہے کہ اِن کے بغیر وہاں کاروبار تو کیا زندگی کا تصور نہیں۔ چینیوں کی تو بات ہی جانے دیں، خود مجھے ایک ہفتے میں وی چیٹ کی ایسی لَت لگ گئی کہ چھٹتی نہیں ہے ’ہاتھ‘ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ میں تو سوچ رہا ہوں کہ پاکستان میں کوئی آئی ٹی کمپنی اِس قسم کی ایپ کیوں نہیں بناتی! دوسری بات جو میں نے چینیوں میں نوٹ کی وہ انتھک محنت ہے، ملک میں کوئی بندہ ایسا نہیں جو کام نہ کرتا ہو اور بے تحاشہ نہ کرتا ہو، کاروبار ہو یا ملازمت، چینی ہُنر مند بھی ہیں اور جان بھی مارتے ہیں۔ نہ جانے ہمارے ذہنوں میں کس نے یہ غلط فہمی ڈالی تھی کہ مغربی کمپنیاں چین میں اِس لیے کارخانے لگاتی ہیں کہ وہاں مزدوری سستی ہے، یہ بات صریحاً غلط ہے، لیبر تو ہمارے جیسے ملکوں میں سستی ہے۔ چین میں کارخانے اِس لیے لگتے ہیں کہ وہاں جتنی تعداد میں ہنرمند افرادی قوت موجود ہے وہ دنیا میں کہیں اور نہیں۔
تیسری بات۔ پورا چینی معاشرہ گوگل اور انگریزی سے بیگانہ ہے۔ اخبار، ٹی وی، انٹرنیٹ، کتابیں، رسالے، ڈرامے، فلمیں، تھیٹر، یہ سب چیزیں یا تو ریاستی اختیار میں ہیں یا پھر ریاست سے منظور شدہ ہیں۔ میں ایک ہفتہ چین میں رہا اور اِس ایک ہفتے کے دوران پاکستان کی چند اخباری ویب سائٹس کے علاوہ میں کوئی مغربی میڈیا نہیں دیکھ سکا، دنیا کا مجھے اتنا ہی علم ہوا جتنا ریاست نے مناسب سمجھا کہ مجھے ہونا چاہیے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن جو گتھی میں نہیں سلجھا سکا وہ یہ ہے کہ چین کے اکثر شہروں میں بدبو کیوں آتی ہے۔ یہ ایک ایسا معمہ ہے جو حل نہیں ہو سکا۔ پچھلی مرتبہ بیجنگ میں یہی تجربہ ہوا تھا اور اِس مرتبہ ہاربن اور شنگھائی میں بھی یہی ہوا۔ آپ کسی پوش علاقے میں سیر کر رہے ہوں گے اور اچانک کہیں سے بدبو کے بھبھکے اُڑ کر ناک میں جا گھسیں گے اور آپ کو لگے گا جیسےکسی گٹر کا ڈھکن کھُل گیا ہے یا کوئی گندا نالہ آ گیا ہے۔ بد بو تھوڑی دیر بعد ختم بھی ہو جاتی ہے مگر پھر کسی اور جگہ اچانک یہی ہوتا ہے۔ میں اِس کی وجہ نہیں جان سکا اور کسی چینی سے پوچھنے کی ہمت بھی نہیں کی، کیونکہ وہ لوگ اِس بدبو کے اِس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ انہیں شاید اِس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مسئلہ کسی نہ کسی محکمے کے ریڈار پر ضرور ہو گا اور اِس کا حل بھی نکل آئے گا۔
چین پر یہ آخری کالم تھا۔ گزشتہ دو کالم پڑھ کر میرے ایک دوست نے تبصرہ کیا کہ آپ نے خواہ مخواہ اِتنا کَشٹ کیا، شنگھائی کی کسی تاریخی عمارت سے بروشر اٹھا لاتے اور اُس کا ترجمہ کرکے سفر نامہ لکھ مارتے، کام بھی آسان ہو جاتا اور علمیت کی دھاک بھی بیٹھ جاتی۔ میں نے جواب دیا کہ مشورہ تو اچھا ہے مگر اُس کا عنوان کیا رکھتا، اُس ستم ظریف نے جواب دیا ’’سفرنامہ۔۔۔میڈ اِن چائنا!‘‘