پشاور (خصوصی نامہ نگار) ملک بھر میں اندازاً تین کروڑ 50 لاکھ سے زائد 18 سال سے کم عمر بچے انٹرنیٹ تک رسائی رکھتے ہیں، جن میں سے اکثریت بغیر مناسب رہنمائی یا نگرانی کے آن لائن سرگرمیوں میں مشغول ہے، جس کے باعث وہ آن لائن استحصال، سائبر بُلیئنگ اور شناخت کی چوری جیسے خطرات کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار پشاور میں ہونے والی دو روزہ تقریب میں پیش کئے گئے، جس کا مقصد بچوں کو آن لائن دنیا میں محفوظ اور با اختیار بنانا تھا۔ ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر بچوں کو ڈیجیٹل خواندگی نہ دی گئی اور والدین مناسب رہنمائی نہ کریں تو وہ نقصان دہ مواد اور استحصال کے خطرے سے دو چار رہیں گے۔ یہ تقریب ’’ہر بچے کو آن لائن با اختیار بنانا – تحفظ، رسائی، اور اظہارِ رائے‘‘ کے عنوان سے بزنس انکیوبیشن سینٹر (بی آئی سی)، پشاور یونیورسٹی میں منعقد ہوئی جس میں سرکاری حکام، چائلڈ پروٹیکشن ماہرین، ماہرین تعلیم اور کمیونٹی نمائندگان نے شرکت کی۔ تقریب کا اہتمام محکمہ سماجی بہبود (ضم شدہ اضلاع) اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے اشتراک سے کیا گیا تھا۔ وزیر برائے سماجی بہبود، خصوصی تعلیم، زکوٰۃ و عشر، اور خواتین کا اختیار، سید قاسم علی شاہ اس موقع پر مہمانِ خصوصی تھے۔ اپنے خطاب میں صوبائی وزیر نے ڈیجیٹل دنیا میں نوجوانوں کے تحفظ کے بڑھتے ہوئے چیلنجوں پر روشنی ڈالی اور ذہنی صحت، آن لائن ہراسانی، اور ڈیجیٹل استحصال پر بڑھتی ہوئی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ، بچوں اور نوجوانوں کو آن لائن خطرات سے محفوظ بنانا قومی چیلنج بن چکا ہے۔ دیگر شرکاء میں ضم شدہ اضلاع کے ڈائریکٹر سماجی بہبود ارشد قیوم برکی، ڈپٹی ڈائریکٹر عبید الرحمٰن، یونیسف کے نمائندے سہیل احمد اور سمبل گیلانی، پروگرام منیجر برائے چائلڈ پروٹیکشن امجد محمود، پی ایم یو کی پراجیکٹ کوآرڈینیٹر کائنات فاروقی، اور بی آئی سی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شکیل شامل تھے، جبکہ مختلف سرکاری اداروں، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، تعلیمی اداروں اور مقامی لوگوں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ تقریب میں ٹک ٹاک، فیس بک، اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز کے وسیع استعمال اور ان کے نوجوانوں کے رویوں پر اثرات سے متعلق فیلڈ تجربات بھی شیئر کئے گئے، آن لائن تحفظ کے عملی اقدامات پر زور دیا گیا، ۔