• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکم تو سب کیلئے ہے کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘، مگر اس پر عمل کم کم ہی ہوتا ہے، لیکن مریم نواز تو شاید اس فرمان کو دل پر ہی لے گئیں۔ حکومت رنگ برنگے نعرے تو لگاتی رہتی ہے اور ہم بھی انہیں زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے بلکہ سیاسی نعروں کے طور پر ہی دیکھتے ہیں، لہٰذا مریم حکومت کا ’’ستھرا پنجاب‘‘ کا نعرہ بھی ہم نے اسی نظر سے دیکھا تھا۔ اب یہ کہنے میں کیا شرمانا کہ ہم غلطی پر تھے۔ اجتماعی گند اور ہمالیائی آلائشوں کا سب سے بڑا چیلنج ہمیں بڑی عید پر درپیش ہوا کرتا ہے، گلیاں بازار جانوروں کی قربانی کے بعد ’’میدانِ جنگ‘‘ کا نقشہ پیش کرتے نظر آتے ہیں، آنتیں، خون، بچے کھچے اعضاء، بچا کھچا چارہ، اور ٹنوں کے حساب سے فضلاء اور چارسُو پھیلی ہوئی ’’مہک‘‘۔ لیکن اس سال اہلِ پنجاب اس دل نشیں اور مشام نشیں صورتِ احوال سے محروم کر دیے گئے۔

قربانی کے بعد زرد پوش جتھے صف بہ صف گلیوں بازاروں میں پھیلتے چلے گئے، استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ حضرات ان سبز پوش بزرگوں کی طرح نہیں جو 1965 کی جنگ میں دیکھے گئے تھے، یعنی کسی کسی کو نظر آنے والے، یہ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کا عملہ تھا جو سب کو دکھائی دے رہے تھے، جاں فشانی سے اپنے کام میںجُتا ہوا۔ اور پھر قربانی کی آلائشیں نسیاً منسیا ہو گئیں، یعنی جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ یہ ایک ناقابلِ یقین حد تک خوش گوار منظر تھا۔ پہلا خیال یہ آیا کہ یہ ساری طہارت ناک کے نیچے یعنی لاہور تک ہی محدود ہو گی۔ پنجاب کے دوسرے شہروں کا حال معلوم ہونا شروع ہوا تو مزید حیرت ہوئی۔ خبر یہ ملی کہ آوے کا آوا ہی ’’سنورا‘‘ ہوا ہے۔ فقط حکومتی لائوڈ سپیکر ہی اس کارنامے کا اعلان نہیں کر رہے تھے، آزاد زرائع بھی بنا کسی لگی لپٹی کے داد دیتے نظر آئے۔ ہمارے دوست معروف صحافی رئوف کلاسرا سوشل میڈیا پر رقم طراز ہیں کہ ’’پنجاب میں صفائی کی مہم ہمارے لیہ میں واقع گائوں بستی جیسل کلاسرا تک بھی پہنچی ہے...(مدت بعد) اب دیکھ رہے ہیں کہ گائوں بھی صاف ہو رہے ہیں۔‘‘ اگر صفائی کا یہ سلسلہ جنوبی پنجاب تک دراز ہو رہا ہے تو ہمارے پاس پُرامید رہنے کی معقول وجہ موجود ہے۔ ابھی ہم ستھرا پنجاب کے ضمن میں ہوئی کوششوں کو داد ہی رہے تھے کہ ایک دوست سے بات ہوئی، سینئر سپورٹس جرنلسٹ ہیں حافظ عمران، کہنے لگے آپ مریم حکومت کو ضرور داد دیں، انہوں نے عید پر صوبے بھر کا گند اور آلائشیں راتوں رات ٹھکانے لگا دیں، لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ یہ گند ڈالا ہی نہ جائے۔ کیا پہلے گند ڈالنا ضروری ہے؟ اور پھر ہزاروں افراد کو صفائی پر مامور کر دینا، وقت، توانائی اور پیسہ صرف کرنا، کیا قربانی کا کوئی ایسا حکومتی نظام وضع نہیں کیا جا سکتا ہے جو ہماری جان اس سارے جھمیلے سے چھڑا دے؟ دوست کی بات سنتے ہی دماغ میں پہلا خیال یہ آیا کہ کاش ہم اس اصول کے تحت پورا ملک چلایا کریں، یعنی گند ڈالیں ہی کیوں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ یک سر مختلف ہوتی اگر ہم اس اصول کو مشعلِ راہ بنا لیتے۔ بلا شبہ، پاکستان کی ریاستی و سیاسی تاریخ گند ڈالنے اور پھر گند صاف کر نے سے عبارت ہے۔ کتنی ہی مرتبہ ہمیں ریاست نے بتایا کہ ’’ہم گند صاف کر نے آئے ہیں‘‘، ان سے مودبانہ سوال کیا گیا کہ یہ جسے آپ گند کہہ رہے ہیں آپ تو اسے انتہائی پاکیزہ اور برگذیدہ بتاتے تھے، آپ تو اسے سرتاپا طہارت جانتے تھے، آپ ہی کے سایہء عاطفت میں تو انہوں نے تربیت پائی، آپ ہی نے تو انہیں طاقت کے مراکز میں مسندیں عطا کیں، پھر راتوں رات یہ گند کیسے ہو گئے؟ بہرحال۔

کہانی تو یہ بہت طویل ہے لیکن آخری باب پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔آخری مسیحا جو ایجاد کیا گیا تھا وہ حضرتِ پیٹرن ان چیف تھے۔ وہ سال ہا سال دشتِ سیاست و سیادت میں بے سمت بھٹکنے کے بعد آپ کا التفات حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئے۔ ’’گند ڈالنے‘‘ کا رسمی آغاز 2011میں کیا گیا۔ فارمولا سیدھا سادہ تھا، سب سیاست دان ’’گند‘‘ قرار پائے (وہ بھی کبھی مطہر تھے) عمران خان کو جب گفٹ پیک کیا گیا تو اس پر جلی حروف سے کندہ کیا گیا کہ یہ سیاست دان نہیں ہے، بس ’ایویں ای‘ سیاست میں آ گیا ہے، لہٰذا اس میں سیاست دانوں والی کوئی بیماری نہیں پائی جاتی، یعنی بندہ ایمان دار ہے، یعنی ایلیکٹ ایبلز کی بلیک میلنگ سے آزاد ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ موروثیت ایک لعنت ہے، ہم کوئی غلام ہیں وغیرہ وغیرہ اور یہ کہ باقی سب کو تو آزما کہ دیکھ چکے ہیں۔ پیٹرن ان چیف کو طہارت کا پیکر ثابت کرنے کیلئے ہتھوڑے، چھڑی اور قلم کا ایک جتھہ ترتیب دیا گیا، بے پناہ پیسہ خرچہ گیا، بے تحاشہ توانائی صرف کی گئی، اور اس ریاست کی ایک دہائی ’’ستھرا پاکستان‘‘ بنانے میں جھونک دی گئی۔ اور ایک ’’پاکیزہ‘‘ معاشرہ بنانےکیلئے سب سے زیادہ محنت سوشل میڈیا پر کی گئی۔ صفحہ پلٹتا ہے۔ پیٹرن ان چیف ہماری تاریخ کا سب سے متعفن گند قرار پایا، جو اس ملک کے نگہ بان اداروں کو بیخ و بُن سے اُکھاڑنا چاہتا ہے، یعنی ریاست کی جڑیں کھوکھلی کرنا چاہتا ہے، بے ایمان ہے، بدعنوان ہے، توہم پرست ہے اور جسکے بدن کا ہر ہر مسام بین الاقوامی بدکاری میں ڈوبا ہوا ہے۔ یعنی گند ہی گند ہے۔ اب یہ گند تن دہی سے صاف کیا جا رہا ہے۔

عید پر خاندان کے لوگ اکٹھے ہوئے تو میری ماموںزاد بہن پروفیسر امیرہ شامل نہیں ہوئی، پوچھنے پر علم ہوا کہ کسی محترم ادارے میں استادوں کی کوئی ورکشاپ چل رہی ہے جس میں شرکت انتہائی ضروری تھی۔ ورک شاپ کا موضوع تھا ’’اس گند کو کیسے صاف کرنا ہے تاکہ اگلی نسلوں کو نو مئی والوں کے شر سے محفوظ رکھا جا سکے۔‘‘ بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں...آپے پائیاں کنڈیاں تے آپے کھچنا ایں ڈور۔

تازہ ترین