اسلام آباد(محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار) ایران کے خلاف اسرائیل کے حملوں میں امریکاکی شمولیت کے بعد ایران کے پاسداران انقلاب (آئی آرجی سی )نے واضح کیاہےکہ ایران کا جواب ایسا ہوگا جس کا دشمن نے سوچا بھی نہ ہوگا‘ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ حملے میں ملوث امریکی طیاروں کے مقام کی نشاندہی کرلی گئی ہے اور خطے میں اس کے فوجی اڈوں کی نگرانی کی جارہی ہے‘ پاسداران کا کہناہے کہ مشرق وسطیٰ میں موجود امریکی اڈے اس کے لئے طاقت کا ذریعہ نہیں بلکہ اس کی کمزوری ہیں‘ ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ ہم مذاکرات اور سفارت کاری کررہے تھے مگر واشنگٹن نے نتیجے کا انتظارکئے بغیر پہلے اسرائیل کے ذریعے حملہ کرایا اور پھر خود ایران پر حملہ کردیا۔دفاعی ماہرین نے جنگ کو بتایا ہے کہ ایران جس کے وزیر خارجہ عباس عراقچی آج ماسکو پہنچ کر روسی صدر پوتن سے ملاقات کررہے ہیں اپنے دوستوں سے مشاورت کرنے کے بعد جوابی کارروائی کرے گا جس سے دس روز سے جاری اس جنگ کی ہولناکی میں زبردست اضافہ ہوسکتا ہے‘ پاسداران نے کہا ہےکہ ایرانی سرزمین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اب سخت رد عمل کا انتظار کرنا چاہئے جو ان کے لئے پچھتاوے کا باعث بنے گا۔ اس دوران امریکا ، ایران میں حکمرانوں کو تبدیل کرنے کے ارادے سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہےکہ امریکا کا موقف ہے کہ اس کی جنگ ایران کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کا نشانہ ایٹمی صلاحیت سے دوسری جانب ایران نے زور دیکر کہا ہےکہ امریکہ نے اس کے ساتھ سفارتکاری کا فریب کیا ہے دو ہفتے قبل تک اس نے ایران کے ساتھ اومان میں مذاکرات شروع کر رکھے تھے اور ساٹھ دن کی مہلت دیکر اسرائیل کا حملہ کرادیا ‘اب جبکہ جنیوا میں یورپی ممالک سے مذاکرات ہو رہے تھے تیسرے ہی دن حملہ آور ہوگیا ہے‘ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ ان حالات میںحب امریکہ سفارتکاری کی آڑمیں جارحیت کے لئے موقع پر پیدا کرتا ہے آئندہ کیونکہ سفارتکاری کا دروازہ کھولا جاسکتا ہے‘امریکا ایک طرف سفارتکاری کا ڈھونگ رچاتا ہے تو دوسری طرف جارحیت کی راہ نکال لیتا ہے‘ مبصرین نے یاد دلایا ہے کہ بارہ سال قبل صدر روحانی نے امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرے تہران اور واشنگٹن کے درمیان پرامن بقائے باہمی کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی تھی جس کے بعد 2015 میں امریکا کی شمولیت سے دنیا کے اہم ممالک جن میں یورپ کے ممالک بھی شامل تھے مشترکہ جامع پلان آف ایکشن بناکر ایران سے مفاہمت ہوگئی تھی اس میں روس اور چین بھی شریک تھے ہر چند ایران کے بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام پر تحفظات تھے تاہم اس پلان آف ایکشن پر عمل ہوتا رہا جس سے ایران کے لئے یورینیم کی افزودگی کی قابل قبول شرح کو یقینی بنالیا گیا تھا۔ مبصرین نے انکشاف کیا ہے کہ اس ایکشن پلاٹ کوڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی حکومت میں اس وقت سبوتاژ کیا گیا جب امریکا نے ایرانی شہریوں پر سفری پابندی عائد کردیں اور تن تنہا ایکشن پلان سے دستبردار ہوگیا ۔اس کے جواب میں ایران نے کہاکہ وہ یورنیم کی پابندیوں سے آزاد ہوکر افزودگی شروع کردے گا ‘دونوں کے درمیان مخالفانہ بیان بازی بڑھتی چلی گئی۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہیں قتل کردیا جائے تو ایران کو مکمل طور پر تباہ کردیا جائے ۔ بعد ازاں بائیڈن حکومت نے ایکشن پلان میں واپس آنے کی کوشش بھی کی تاہم وہ کامیاب نہ ہوسکی ۔ مبصرین کن کہنا ہے کہ ٹرمپ کی دوسری صدارت میں آغاز کار سے ہی ایران کے خلاف امریکی انتظامیہ کی کارروائیوں میں سختی شروع ہوگئی۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے اتوار کے حملوں کے بعد چین سے کہا ہےکہ وہ ایران کو آبنائے ہرمز بند کرنے سے بعض رکھے۔ پتہ چلا ہے کہ ایران نے اپنی تینوں ایٹمی تنصیبات سے ’’ضروری سازو سامان‘‘تین قبل ہی ہٹا لیا تھا جنہیں امریکی طیاروں نے نشانہ بنایا ہے وہاں متعین عملے کی تعداد میں ہی غیر معمولی تخفیف کردی گئی تھی یہی وجہ ہےکہ ایران کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کو اپنی جارحیت کے مقاصد حاصل نہیں ہوسکے۔