• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اٹھارہویں صدی کے آخری برس تھے۔ فرانس میں نپولین اپنی حکومت قائم کر چکا تھا۔امریکی آئین اپنی ابتدائی آزمائش کے مرحلے میں تھا۔ ہندوستان کے جنوب مغربی ساحلوں پر میسور کا حکمران فتحیاب علی ٹیپو سلطان اپنی بقا کی لڑائی لڑ رہا تھا۔ روشن خیالی کی تحریک اپنا تاریخی کردار ادا کرنے کے بعد انیسویں صدی کی افراتفری میں داخل ہو رہی تھی۔ دو ادوار کے اس درمیانی جھٹپٹے میں ہسپانوی مصور فرانسسکو گویا نے اپنی ایک پینٹنگ کو عنوان دیا کہ ’جہاں عقل کو اونگھ آ جاتی ہے، وہاں عفریت جنم لیتے ہیں‘ ۔ دو صدیاں بعد بھی یہ بظاہر سادہ جملہ تاریخ میں اپنی صداقت منوانے کو بار بار پلٹتا ہے۔ درویش نے گزشتہ تحریر میں بہت محتاط زاویے سے حالیہ بارہ روزہ جنگ میں ایران کی ناکامی پر ایک جملہ تحریر کیا تھا۔ دیوار عصبیت کی اوٹ سے جھانکنے والے مہربان اس بیان پر یوں بھڑکے ہیں کہ تکلم کی تہذیب کا حجاب بھی اٹھا دیا۔ انہیں شاید اندازہ ہی نہیں کہ وہ جس سوق الظلام کے ملبے پر نابینا منطق کا ٹھیلا لگاتے ہیں، ہمیں اس بازار سے منسوب جنس ہی سے کوئی تعلق نہیں۔ بہتر ہو گا کہ جذباتی بیانات کی بجائے حقائق پر ایک نظر ڈالی جائے۔

ایران میں موجودہ سیاسی بندوبست فروری 1979 ءمیں قائم ہوا۔ ہر آمریت کو اپنے جواز کے لئے داخلی اور بیرونی خطروں کے مفروضات قائم کرنا ہوتے ہیں۔ ایران نے بھی یہی حکمت عملی اختیار کی۔ اندرونِ ملک مزاحمت کو کچلنے کے لئے علاقائی ذیلی گروہ مرتب کیے گئے۔ واضح رہے کہ ایران کی آبادی دس کروڑ اور اسرائیل کی آبادی 95 لاکھ ہے۔ ایران کا رقبہ ساڑھے سولہ لاکھ مربع کلومیٹر ہے جب کہ اسرائیل کا رقبہ محض 22 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ ایرانی قیادت کے پے در پے غلط تزویراتی فیصلوں سے ایرانی معیشت تباہ ہوئی ہے اور اسے سفارتی تنہائی کا سامنا ہے۔ 2015ءمیں باراک اوبامہ حکومت کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ ایران کے لئے عالمی دھارے میں لوٹنے کا بہترین موقع تھا لیکن ایران نے یمن میں حوثیوں، لبنان میں حزب اللہ، غزہ میں حماس اور شام میں بشار الاسد کے بھروسے پر یہ حکمت عملی اختیار کیے رکھی کہ ایران پر کسی حملے کی صورت میں علاقائی حلیف گروہوں کی مدد سے جوابی کارروائی کی جائے گی۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں ایران کے روایتی داخلی دفاع پر توجہ دینے کی بجائے ایٹمی پروگرام اور بیلسٹک میزائلوں پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے۔ 2018 میں ایران سے معاہدہ منسوخ کرنے کے باوجود رواں برس اقتدار میں آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ سفارتی رابطوں کا عندیہ دیا جسے پائے حقارت سے مسترد کیا گیا۔

اکتوبر 2023ءمیں ایران خطے میں اپنی طاقت کے عروج پر تھا جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے 1200 افراد کو قتل اور قریب 700 افراد کو اغوا کیا۔ اس پر اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف کارروائی شروع کی جس میں ہزاروں معصوم فلسطینی نشانہ بن چکے ہیں اور باقی ماندہ زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ غور کرنا چاہیے کہ دنیا بھر میں فلسطینیوں کے لئے احتجاج ہو رہا ہے لیکن کسی نے ایران کی حمایت نہیں کی۔ ایران کی خواہش تھی کہ اسرائیل لبنان میں حزب اللہ کے خلاف محاذ کھول کر جنگ کا دائرہ وسیع کرے۔ لیکن اسرائیل نے 17 ستمبر 2024 کو بوبی ٹریپ حملوں سے حزب اللہ کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ اس پر ایران نے اکتوبر میں اسرائیل پر سینکڑوں میزائلوں سے حملہ کیا جو غیر موثر رہا۔ بحیرہ احمر میں حوثی حملوں سے عالمی معیشت متاثر ہوئی اور ایران کی حمایت میں کمی واقع ہوئی۔ ایران اپنے مخالفین کی قوت اور ارادوں کا اندازہ لگانے میں ناکام رہا۔

دسمبر میں بشار الاسد کی حکومت ختم ہونے سے ایران کے لئے مشرق وسطیٰ میں اپنے حلیف گروہوں کو اسلحے کی ترسیل ممکن نہ رہی۔ غزہ، یمن، لبنان، شام اور عراق میں ایران کےذیلی گروہوں کے مفلوج ہونے سے ایران اپنے بنیادی عسکری مفروضے میں شکست کھا گیا۔ روس اور چین سے امداد کی توقع بھی پوری نہ ہو سکی۔ 13 جون 2014 ءکو اسرائیل نے ایران پر ابتدائی حملوں ہی میں ایران کی اعلیٰ ترین عسکری قیادت اور چنیدہ ایٹمی سائنسدان ختم کر دیے۔ عسکری ماہرین جانتے ہیں کہ اعلیٰ قیادت کے خلاف اس قدر کامیاب کارروائی نچلے درجے کے جاسوسی اثاثوں سے ممکن نہیں ہوتی۔ اس کے لئے اعلیٰ ترین سطح پر حریف کی صفوں میںدراندازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایران کی فضائیہ کا بیشتر حصہ نصف صدی پرانا ہے جو دنیا بھر میں ربع صدی قبل ترک کیا جا چکا۔ ایران کے مگ 14 جدید جے 35 اور 52بی کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ اسرائیل کو ایرانی فضاؤں میں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بیس جون کو امریکہ نے اطلاع دے کر ایران کے تین نیوکلیائی مراکز پر حملہ کیا تو اسے فضائی مزاحمت تو کیا، کسی ڈرون تک سے واسطہ نہیں پڑا۔

اگرچہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو پہنچنے والے نقصان کا درست اندازہ تو خود ایرانی قیادت ہی کو ہو سکتا ہے لیکن یہ طے ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو دھچکا پہنچا ہے۔ اس کے بیلسٹک میزائلوں کا ذخیرہ بہت کم رہ گیا ہے خاص طور پر میزائل لانچر ٹھکانوں اور انہیں تیار کرنے والی کارگاہوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ایران کی عسکری قیادت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس کے سائنسی اثاثے چن چن کر ختم کئے گئے ہیں۔ ایران کی سیاسی قیادت کی ساکھ کا یہ عالم ہے کہ اس کے رہبر اعظم بارہ روز تک اپنی اعلیٰ ترین قیادت سے رابطے میں نہیں تھے۔

برسوں کی محنت سے تیار کردہ ذیلی گروہ بکھر چکے ہیں۔ فی الحال ایرانی عوام اپنے وطن کے نام پر حکومت کے ساتھ ہیں لیکن سیاسی، عسکری اور انتظامی قیادت میں بے چینی پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ اگرچہ ایران کا پیشوائی نظام موجود ہے اور عالمی قوتیں اسے ختم کر کے مزید انتشار پیدا کرنا بھی نہیں چاہتی تھیں لیکن نصف صدی سے قائم ایرانی پیشوائیت کبھی اس قدر کمزور نہیں تھی۔ اکتوبر 2023ءسے اب تک اٹھارہ ماہ میں ایران کا عسکری، سیاسی اور انتظامی نظام بدل چکا ہے۔ ایران اپنا کوئی ہدف حاصل نہیں کر سکا اور اس کے تزویراتی اثاثے بھی تنکوں کی مانند بکھرےدکھائی دیتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایران اب سفارتی ذرائع سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرتا ہے یا ماضی کی طرح عسکری مزاحمت ہی پر بھروسا جاری رکھتا ہے۔

تازہ ترین