جس ڈرامائی انداز سے ایران، اسرائیل جنگ شروع ہوئی تھی، اُسی انداز سے ختم ہوگئی۔ سیز فائر کا اعلان خود امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا اور اُنہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب ایران اور اسرائیل کے درمیان کوئی تنازع نہیں۔اُنہوں نے ایرانی عوام کی کُھل کر تعریف کی، جب کہ اسرائیل کو’’سخت لہجے‘‘ میں فوری بم باری روکنے کو کہا۔ یاد رہے، حماس کے رہنما، اسماعیل ہانیہ کی تہران میں شہادت کے بعد بھی ایران نے اسرائیل پر میزائلوں اور ڈرونز سے حملہ کیا تھا۔
بہرحال، بارہ روزہ جنگ کا ہر لمحہ ڈرامائی کیفیت کا حامل رہا، خاص طور پر جب امریکا نے ایران کی فردو ایٹمی تنصیب پر دنیا کے سب سے طاقت وَر غیر ایٹمی بم گرائے، تو گویا دنیا سکتے میں آگئی۔ جواباً ایران نے قطر میں قائم امریکی فوجی بیس پر میزائل داغے، جس پر جنگ کا دائرہ پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا، مگر اچھی بات یہ ہوئی کہ چند گھنٹوں بعد ہی جنگ بندی کا بگل بج گیا۔ یہاں دو باتیں اہم ہیں۔
ایک تو یہ کہ ایران اور اسرائیل کے مابین زبانی جنگیں تو گزشتہ چار دہائیوں سے چل رہی ہیں، تاہم براہِ راست جنگ پہلی بار ہوئی ہے۔ دوم، مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاز حزب اللہ، حماس اور یمنی حوثی حالیہ دنوں میں تقریباً غیر مؤثر ہو چُکے ہیں۔
جنگ میں کبھی کوئی فاتح نہیں ہوتا، کیوں کہ آج کل ہتھیار اور ٹیکنالوجی اتنے منہگے ہوگئے ہیں کہ وہ ہارنے اور جیتنے والے، یعنی دونوں کی معیشت ہلا ڈالتے ہیں۔ لوگوں کو حب الوطنی کی نام پر ان جنگوں میں ملوّث ہونا پڑتا ہے اور پھر وہ پناہ یا خوراک کے لیے مارے مارے پِھرتے ہیں، جب کہ لیڈر زمین دوز پناہ گاہوں اور بینکرز میں بیٹھے احکامات جاری کرتے رہتے ہیں۔
یہی حال ایران اور اسرائیل کی لیڈر شپ کا بھی تھا۔جنگ کے دَوران سلامتی کاؤنسل کے دو اجلاس ہوئے، جب کہ یورپی کاؤنسل اور او آئی سی نے بھی ہنگامی اجلاس کیے، مگر یہ سب بے نتیجہ ہی رہے۔ صُورتِ حال اُس وقت یک سَر تبدیل ہوگئی، جب امریکا نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر بم گرائے۔
چین، روس اور یورپی ممالک بار بار جنگ روکنے کے بیانات دے رہے تھے، اُن کی جانب سے اسرائیل کی مذمّت بھی کی جا رہی تھی، لیکن یہ سب بے بس نظر آئے۔ اِس صُورتِ حال نے جہاں اہم ترین عالمی ادارے کی فعالیت پر سوالات اُٹھائے، وہیں یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ بڑی طاقتیں ایسے حالات میں کس قدر بے بس ہو جاتی ہیں۔ بالکل یہی صُورتِ حال شام اور یوکرین میں اُس وقت ہوئی تھی، جب روس نے اِن دونوں ممالک پر بم باری کی۔
دنیا کو شُکر ادا کرنا چاہیے کہ صدر ٹرمپ نے خود قطر کے امیر کی ثالثی میں ایران، اسرائیل جنگ بند کروادی، وگرنہ یوکرین کی جنگ، جو روس کے حملے سے شروع ہوئی،41 ماہ سے جاری ہے، جب کہ غزہ کی جنگ کو اکیس ماہ ہوچُکے ہیں۔ وہاں کے عوام کس تکلیف دہ صُورتِ حال سے دوچار ہیں،ہم سب اِس سے واقف ہیں۔
اب وہاں بھی جنگ بندی کی باتیں ہو رہی ہیں اور اِس ضمن میں مختلف فارمولے بھی میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔ اِس مرتبہ امریکا براہِ راست، پوری طاقت کے ساتھ، اسرائیل کی حمایت میں جنگ میں کود پڑا، لیکن یہ بھی کوئی نئی بات نہیں، کیوں کہ اِس سے قبل روس نے بشار الاسد کی حمایت میں شامی شہریوں پر دو سال تک بم باری کی۔ یہ اور بات کہ ہمارے ہاں اُن پانچ لاکھ شہریوں کے قتلِ عام کا ذکر بہت کم ہوا، جب کہ ایک کروڑ شامی شہری آج بھی بے گھر ہیں، گو کہ بشار الاسد، ایران اور روس وہاں سے جاچُکے ہیں۔
ایران، اسرائیل بارہ روزہ جنگ نے اُس وقت زور پکڑا، جب ایران نے اسرائیل کی بم باری کے جواب میں اپنے بلاسٹک میزائل داغنے شروع کیے، جن سے ہونے والی تباہی کا اعتراف خود صدر ٹرمپ نے بھی کیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، ایران کے میزائل دفاعی نظام، آئرن ڈوم کو توڑ کر اسرائیلی شہروں پر آگ برساتے رہے۔ ایران نے اِسی بنیاد پر اِس جنگ میں کام یابی کے دعوے کیے ہیں۔
جنگ کا سب سے خطرناک لمحہ وہ تھا، جب امریکا نے ایران کی فردو جوہری تنصیب کو نشانہ بنایا۔ اِس سے قبل اسرائیل اپنے پہلے دن کے حملے میں ایران کے فضائی دفاعی نظام کو بالکل تباہ کرچُکا تھا اور اُس کے بم بار طیارے، ڈرونز جہاں چاہتے، حملہ کر دیتے۔ اِس کی وجہ سے تہران شہر سے نقل مکانی بھی ہوئی۔اسرائیل کے پہلے روز کے حملوں میں ایرانی پاس دارانِ انقلاب اور فوج کی ٹاپ لیڈر شپ بھی نشانہ بنی۔
رہبرِ اعلیٰ کو محفوظ بنکر میں پہنچادیا گیا، جہاں سے وہ جنگ کی کمان کر رہے تھے۔ اِس دوران ایران کی سیاسی لیڈرشپ، صدر مسعود پزشکیان کی رہنمائی میں معمول کے مطابق کام کرتی رہی، خاص طور پر وزیرِ خارجہ بہت سرگرم رہے، جنہوں نے ماسکو میں صدر پیوٹن سے ملاقات کے ساتھ، یورپی کاؤنسل کے اجلاسوں میں بھی شرکت کی۔ امریکا نے ایران کے جوہری پلانٹ پر جو بم گرائے، اُن کا وزن13 ٹن بتایا جاتا ہے، جنہیں ایک خاص قسم کے بی-ٹو طیاروں کے ذریعے گرایا گیا۔
جنگی ماہرین کے مطابق یہ بم نیوٹن کے قانون کششِ ثقل کے مطابق اپنے وزن سے نیچے آتے ہیں، لیکن زمینی سطح سے ٹکرانے کے بعد پَھٹتے نہیں، بلکہ زمین کے اندر جاکر خاصی گہرائی میں پَھٹتے ہیں۔ جیسے پہاڑی میں قائم فردو پلانٹ کے اندر جاکر پھٹے۔ یہ بم اپنے خود کار نظام کے ذریعے خالی جگہ تلاش کرتے ہیں، جیسے پلانٹ کے ہال وغیرہ اور وہاں پہنچنے کے بعد اِنہیں بلاسٹ کردیا جاتا ہے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ اُس نے ایسے14بم پھینکے، جن سے جوہری تنصیب تباہ ہوگئی۔ فردو ہی وہ پلانٹ ہے، جہاں عالمی ادارے کے مطابق،60 فی صد یورینیم افزودہ کی گئی، تاہم ایٹم بم بنانے کے لیے یہ مقدار کافی نہیں۔ امریکی میڈیا کی بعض رپورٹس کے مطابق، افزودہ یورینیم امریکی حملے سے قبل وہاں سے کسی اور مقام پر منتقل کردی گئی تھی۔ میڈیا کے مطابق، ایران نے کسی دوسری جگہ خفیہ پلانٹ بنایا ہے اور وہ چند مہینوں میں اِسے بم گریڈ تک افزودہ کرسکتا ہے۔ ایران کی یہ بڑی کام یابی ہے کہ اُس نے اپنا ایٹمی پروگرام بچا لیا۔
تاہم، دوسری طرف اِس میں خطرے کا پہلو بھی ہے کہ کیا مغربی طاقتیں، چین اور روس، ایران کو جوہری بم بنانے دیں گی، جب کہ وہ پہلی نیوکلیئر ڈیل میں اس افزودگی کو پانچ فی صد پر لانے کا وعدہ بھی کرچُکا ہے۔ پھر یہ کہ اِس صُورت میں اسرائیل کے حملے کا خطرہ بھی برقرار رہے گا۔امریکا کا دعویٰ ہے کہ اُس نے ایران کے ایٹم بم بنانے کی صلاحیت فی الحال ختم کردی ہے۔
صدر ٹرمپ امریکی میڈیا پر خُوب گرجے برسے، جو ایسے تجزیے پیش کر رہا ہے، جس کے مطابق ایران کے پاس اب بھی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایران کے ترجمان نے الجزیرہ ٹی وی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ اُن کی ایٹمی تنصیبات کو بہت نقصان پہنچا ہے، جب کہ ایران ماضی میں اِس الزام کو بار بار مسترد کرچُکا ہے کہ وہ ایٹم بم بنانا چاہتا ہے۔
ایران نے امریکی حملے کے جواب میں قطر میں قائم امریکی فوجی اڈے پر 14میزائل داغے، لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق، ایران نے امریکا اور قطر، دونوں کو بتا دیا تھا کہ وہ یہ حملہ کرنے جارہا ہے۔ قطر کا کہنا ہے کہ تمام میزائل فضا ہی میں تباہ کردیئے گئے۔ یاد رہے، جب ایران نے اسماعیل ہانیہ کے قتل کے بعد اسرائل پر میزائل حملہ کیا تھا، تب بھی اس نے فریقین کو پیشگی اطلاع دے دی تھی۔
فوجی اور سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کا یہ جواب اُسی قسم کا تھا، جیسے اِس سے قبل جنرل سلیمانی کے قتل پر امریکا کے ایک فوجی اڈّے پر حملہ کرکے دیا گیا تھا۔ عرب ممالک نے قطر کے امریکی بیس پر ایرانی حملے کی مذمّت کی اور اِن ممالک میں سعودی عرب بھی شامل تھا۔ نیز، دیگر مسلم ممالک نے بھی اِس صُورتِ حال پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
قطر پر حملے کے بعد دنیا سانس روک کے بیٹھ گئی، کیوں کہ صدر ٹرمپ کہہ چُکے تھے کہ امریکی تنصیبات پر حملے کا جواب بہت خوف ناک ہوگا۔ وہ لمحات بھی بڑے ڈرامائی تھے، جب امریکی صدر، سچوئیشن روم میں چلے گئے، جہاں ٹاپ امریکی فوجی قیادت اور وزرا موجود تھے۔لیکن دنیا نے اُس وقت سُکھ کا سانس لیا، جب ٹرمپ نے کمرے سے باہر نکل کر حملے کا جواب دینے کی بجائے یہ خوش خبری سُنائی کہ اسرائیل اور ایران میں فوری طور پر سیز فائر ہوگیا ہے۔
اِس سے قبل ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز جیسی آبی گزرگاہ کی ممکنہ بندش بھی موضوعِ بحث رہی۔ اگر ایسا ہوجاتا، تو یقیناً دنیا میں تیل کی قیمتیں آسمان پر چلی جاتیں، لیکن اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ آبنائے ہرمز کی بندش سے سب سے زیادہ متاثر چین ہوتا، جو ایران پر پابندیوں کے بعد بھی اُس سے یومیہ اٹھارہ لاکھ بیرل تیل خرید رہا ہے۔ پھر بھارت کو جھٹکا لگتا، جو ایران سے بڑی مقدار میں سَستا تیل لیتا ہے۔
تیل کی سپلائی رُکنے سے منہگائی بڑھتی اور یوکرین جنگ کی سی کیفیت دوبارہ دنیا کو لپیٹ میں لے لیتی۔ واضح رہے، امریکا یہاں سے چھے ہزار میل دُور ہے اور وہ بڑی مقدار میں تیل پیدا کرتا ہے، اِس لیے اُسے آبنائے ہرمز کی بندش سے کوئی خاص فرق نہ پڑتا۔ ویسے بھی فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ آبی گزر گاہیں بند کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ اِس مقصد کے لیے پانی میں بارودی سرنگیں بچھانی پڑتی ہیں، جو شاید ایران کے بس میں نہ تھا، کیوں کہ اگر وہ وہاں کوئی سرگرمی کرتا، تو فضا میں اسرائیل طیارے موجود تھے۔
قطر حملے کے فوراً بعد سیز فائر نے مسلم دنیا کو بھی ایک بڑے بحران سے بچا لیا۔ مسلم ممالک نے ایران پر اسرائیلی جارحیت کی مذمّت کی تھی اور اِن میں وہ ممالک بھی شامل تھے، جن کے اسرائیل سے باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں، جیسے تُرکیہ، یو اے ای، بحرین، تیونس، مصر اور اردن۔ لیکن قطر حملے سے مسلم ممالک میں دراڑ پڑنے کے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ نے اپنی طویل سفارت کاری کے ذریعے کچھ عرصہ قبل ہی سعودی عرب اور ایران میں سفارتی تعلقات بحال کروائے تھے۔ پاکستان بھی ایک بہت بڑی آزمائش سے بچ گیا، کیوں کہ وہ سعودی عرب کے بہت قریب ہے، جس کے اربوں ڈالرز اور ادھار تیل کا اس کی معیشت میں کلیدی کردار ہے۔
دوسری طرف، یواے ای نے بھی ہمیں اربوں ڈالرز دیئے ہیں، تو قطر سے ایل این جی امپورٹ کرتے ہیں۔ سعودی، ایران تنازعے میں پاکستان کو ہمیشہ بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا۔ شُکر ہے، سیز فائر ہوا اور اس مشکل سے بچ گئے، کیوں کہ پاکستانی عوام مزید منہگائی برداشت کرنے کے قابل نہیں اور اوپر سے بھارت کا خطرہ بھی ابھی ٹلا نہیں۔
صدر ٹرمپ نے نیٹو کانفرنس کے موقعے پر میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنا تیل چین اور دوسرے ممالک کو بیچ سکتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا اور مغربی ممالک ایران پر عاید پابندیاں نرم کرسکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران کی معیشت سنبھلنی چاہیے۔ ایران گزشتہ بیس سال سے امریکی اور مغربی پابندیوں کی وجہ سے معاشی طور پر بہت کم زور ہوچُکا ہے، اُس کا ریال غیر معمولی دباؤ میں ہے اور گرتا ہی چلا جارہا ہے۔
پڑوسی کس مشکل میں ہیں، اِس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، کیوں کہ ہم بھی گزشتہ چھے سال سے اسی معاشی بے چارگی کے شکار ہیں۔ ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے اور پاکستان نے اِس بارہ روزہ جنگ میں ہر سطح پر اُس کا ساتھ دیا۔
ہمیں شُکر ادا کرنا چاہیے کہ تیسری عالمی جنگ اور آبنائے ہرمز بند کرنے کے تجزیے غلط ثابت ہوئے۔ اصل میں دنیا اور اس کی لیڈر شپ، خواہ کتنی ہی غیر ذمّے دار کیوں نہ نظر آئے، وہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں سے سبق حاصل کر چُکی ہے۔ ویسے بھی کیا دنیا کے آٹھ ارب انسانوں کی قسمت میں تباہی، غربت اور افلاس کے سِوا کچھ نہیں…؟؟