کراچی ( رپورٹ: محمد منصف) سپریم کورٹ آف پاکستان میں 56 ہزار 145 مقدمات زیر التواء ہیں جن میں ماتحت عدالتوں سے جاری فیصلوں کے خلاف 30 ہزار سول پٹیشن ( سی پی ایل اے) جبکہ 9 ہزار سے فوجداری مقدمات کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں دائر ہیں، گذشتہ دو ہفتوں میں عدالتی عظمیٰ نے 747 مقدمات پر فیصلہ سنایا اور اسی دوران 771 نئے مقدمات داخل ہوئے ہیں، حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق 15 جون کو زیر سماعت مقدمات کی تعداد 56 ہزار 121 تھی اور 16 جون سے 30 جون کے دوران نمٹائے گئے مقدمات سے زیادہ نئے مقدمات دائر ہوئے جس کے بعد موجودہ زیر التواء مقدمات کی تعداد 56 ہزار 145 ہوگئی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ عرصے میں سپریم کورٹ پرنسپل سیٹ اسلام آباد میں 431 مقدمات پر فیصلے سنائے گئے ، لاہور رجسٹری میں 263 مقدمات نمٹائے گئے، پشاور رجسٹری میں 52 مقدمات ، کراچی رجسٹری میں 1 جبکہ کوئٹہ رجسٹری میں کسی مقدمہ پر بھی فیصلہ نہیں سنایا گیا۔ گذشتہ دو ہفتوں میں اسلام آباد پرنسپل سیٹ میں سب سے زیادہ 446 مقدمات دائر ہوئے، لاہور رجسٹری میں 168 ، کراچی رجسٹری میں 75 ، پشاور رجسٹری میں 69 اور کوئٹہ رجسٹری میں 13 نئے مقدمات دائر ہوئے۔ اس وقت سپریم کورٹ میں سب سے زیادہ ماتحت عدالتوں سے جاری فیصلوں کے خلاف سول پٹیشن ( سی پی ایل اے ) التواء کا شکار ہیں جن کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہیں اسی طرح 9 ہزار سے زائد فوجداری مقدمات پر فیصلوں کے خلاف اپیلیں التواء میں ہیں۔ واضح رہے 26ویں ترمیم سے پہلے سپریم کورٹ میں مستقل ججز کی تعداد 17 تھی تاہم بعد ازاں فاضل ججز کی تعداد بڑھا کر 25 کر دی گئی اس وقت عدالت عظمیٰ میں مستقل ججز کی تعداد 23 ہے۔ سپریم کورٹ میں ججز کی مطلوبہ تعداد میں دو اسامیاں تاحال خالی ہیں اور جسٹس میاں گل اورنگزیب ، جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود اور جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم خان میاں خیل سپریم کورٹ میں ایڈیشنل جج کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔26ویں ترمیم کی روشنی میں عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ میں آئینی بینچوں کا عمل میں لانے کی منظوری دی گئی تاہم اب تک صرف سپریم کورٹ آف پاکستان اور سندھ ہائی کورٹ میں آئینی بینچ قائم کئے گئے ہیں جبکہ باقی اسلام آباد ، پشاور، لاہور اور کوئٹہ کی ہائی کورٹس میں آئینی بینچوں کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا۔