• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنگ کا میدان، مذاکراتی میز کا نعم البدل کبھی نہیں ہوسکتا
جنگ کا میدان، مذاکراتی میز کا نعم البدل کبھی نہیں ہوسکتا

گزشتہ پانچ برسوں پر نظر ڈالی جائے، تو لگتا ہے کہ دنیا پھر سے اپنے تنازعات کے حل کے لیے جنگ کے میدان کو مذاکرت کی میز پر ترجیح دینے لگی ہے۔نوبت یہاں تک آچُکی کہ بڑی طاقتوں سے بھی صبر نہیں ہوتا، جب کہ چھوٹے اور کم زور ممالک، جن کے پاس اپنے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں دینے کے لیے بھی پیسا نہیں، جنگ کو آخری حل سمجھ کر اس میں اربوں ڈالرز جھونک رہے ہیں، جب کہ ان ممالک کے عوام غربت کی لکیر سے نیچے لڑھکتے چلے جارہے ہیں۔ اُدھر امریکا اور روس نے، جو ہر وقت امن کا درس دیتے ہیں، اِس عرصے میں بھرپور طور پر جنگوں میں حصّہ لیا۔ 

روس تو گزشتہ دس سالوں سے کہیں نہ کہیں جنگ میں ملوّث ہے اور صدر پیوٹن کا دَور اُن کی جنگوں کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا، جو پہلے تین سال شام اور اب ساڑھے تین سال سے یوکرین میں لڑ رہے ہیں۔اِن جنگوں میں ہزاروں نہیں، لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔6 لاکھ افراد شام میں اور ستّر ہزار یوکرین کی جنگ میں مارے گئے۔

شہر کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے، جب کہ خُود روس کی یہ حالت ہے کہ اُس کی معیشت شدید دباؤ میں ہے۔ تیل و گیس کو، جو اس کے بنیادی وسائل ہیں، 35فی صد کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہے۔ اُس پر یہ خبریں بھی عام ہیں کہ وہ اپنی فوجی طاقت میں مزید اضافے کے لیے جدید ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہے۔ 

امریکا، جو افغانستان سے جانے کے بعد یقین دلاتا رہا کہ ہتھیاروں کا کھیل چھوڑ چُکا ہے، ایران، اسرائیل جنگ میں کود پڑا اور ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر دنیا کا سب سے بڑا غیر ایٹمی بم مار دیا۔ خیال تھا کہ یہ جنگ بھی طول پکڑے گی، تیل کی سپلائی رُکے گی اور نیا اقتصادی بحران آئے گا، لیکن بہرکیف، صدر ٹرمپ نے ہوش مندی کا ثبوت دیا، جس پر ایران، اسرئیل بارہ روزہ جنگ سیز فائر پر ختم ہوگئی۔ غالباً صدر ٹرمپ نہیں چاہتے تھے کہ امریکا ایک مرتبہ پھر ویت نام یا افغانستان جیسے تجربے سے گزرے۔

حماس کے7 اکتوبر کے حملے سے شروع ہونے والی لڑائی، جس میں اسرائیل نے جارحیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے، ایران، اسرائیل جنگ کے دَوران انتہا کو پہنچی۔ پاکستان اور بھارت دو مہینے قبل چار وز تک جنگ کے میدان میں آمنے سامنے رہے۔ نیوکلیئر ہتھیار رکھنے والے ممالک کی جنگ کہاں تک جاسکتی ہے، یہ سوچ کر ہی رُوح کانپ اُٹھتی ہے۔

کیا ان ممالک کی قیادت کو علم نہیں کہ یہ صرف کسی میدانِ جنگ کا معاملہ نہیں، پورے خطّے بلکہ پوری دنیا کے افراد اس کا شکار ہوں گے۔ ذرا ترقّی یافتہ ممالک کے لیے دی جانے والی ویزا درخواستوں اور اُن کے سفارت خانوں کے باہر موجود قطاروں پر نظر ڈال لیں، تو سیاست دانوں کی عقل ٹھکانے آجائے گی کہ اُنہوں نے اپنے عوام کو کس اذیت میں مبتلا کرکھا ہے۔

جہاں عالمی جنگوں اور ایٹم بم کے استعمال نے عوام کو تباہی سے دوچار کیا، وہیں اُن کی سیاسی قیادت کو باور کروایا کہ جنگ سوائے تباہی کے کچھ نہیں اور اس میں صرف عوام ہی پِستے ہیں۔ اِسی لیے فیصلہ کیا گیا کہ کوئی کسی مُلک پر مستقل قبضہ نہیں رکھ سکتا۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم پر نظر ڈالیں، تو معلوم ہوجائے گا کہ سوائے ایک دو کے، تمام رہنما خوش حالی کی زندگی گزارتے ہوئے اپنی آخری منزل کو پہنچے، لیکن عوام اور ممالک کو سنبھلنے میں ایک تہائی صدی سے زیادہ عرصہ لگا۔

سرد جنگ اِس لحاظ سے پھر بھی بہتر تھی کہ اُس میں براہِ راست فوجی ٹکرائو کا خطرہ کم تھا۔ یورپی طاقتیں،جیسے فرانس، برطانیہ، جرمنی اور اٹلی وغیرہ، اِن جنگوں میں اِس بُری طرح تباہ ہوئے کہ سیکڑوں سال پرانی دشمنیاں بھول کر ترقّی و خوش حالی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون میں لگ گئے، جب کہ جنوب مشرقی ایشیا میں جاپان پر ایٹم بم کی ہول ناکیوں نے اُسے ایسا سبق سِکھایا کہ وہ سب بھول بھال کر صرف معاشی ترقّی میں جُت گیا۔

آج یہی خطّہ سب سے زیادہ پُرامن اور تیز رفتار ترقّی کرنے والا ہے۔ یہ ترقّی جو جاپان سے شروع ہوئی، پھر چین کے بعد بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک تک پہنچی۔ ویت نام کی جنگِ آزادی پچاس سال پہلے ختم ہوئی اور یہ اِس علاقے کا آخری معرکہ تھا۔لیکن مشرقِ وسطیٰ، مغربی اور جنوبی ایشیا کے ممالک دو، تین تنازعات کی لپیٹ میں اِس طرح آئے کہ اب تک کوئی اُن کا حل تلاش نہ کر پائے۔ اسے کبھی عالمی طاقتوں کی سازش کہا جاتا ہے، تو کبھی جنگِ آزادی اور کبھی انسانی حقوق کی پامالی۔

افریقا بھی آج تک استحکام حاصل نہیں کرسکا کہ وہاں حکومتوں کا آنا جانا معمول اور خانہ جنگیوں میں ہزاروں افراد کی ہلاکت روز کی بات ہے۔ چین، جاپان اور جنوب مشرقی ایشیا نے اِس عرصے میں خوب ترقّی کی۔ تنازعات کا حل پُرامن طریقے سے طے کرنے کی بہترین مثال سرد جنگ کا اختتام تھا، جو یورپ میں ایک گولی چلائے بغیر ختم ہوگئی اور جو دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی طاقت تھی، بکھر کر روس تک محدود رہ گئی۔

اِس ٹوٹ پھوٹ سے بارہ مسلم ریاستوں کو آزادی ملی، تو یورپ بھی متحد ہوگیا۔ اِس واقعے سے دوسری عالمی جنگ کی یاد تازہ ہوگئی، جب برطانیہ جیسے سُپر پاور کو جنگ جیتنے کے باوجود اپنی نوآبادیات چھوڑنی پڑیں، جن میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔ وہ برٹش ایمپائر کی بجائے صرف برطانیہ رہ گیا اور اس پر قناعت بھی کرلی۔ فرانس کا بھی یہی حال ہوا۔

مشرقِ وسطیٰ بھی عالمی جنگوں کے نتیجے میں کئی آزاد ممالک اور ریاستوں میں تبدیل ہوگیا، جو پہلے سلطنتِ عثمانیہ کا حصّہ تھیں۔ اِن ممالک کی خوش قسمتی رہی کہ کچھ کیے کرائے بغیر ان کی زمین سیاہ سونا، یعنی تیل اُگلنے لگی۔ ایران سے سعودی عرب تک یہ تیل مغربی کمپنیز نے نکالا کہ اُن کے پاس ہی یہ ٹیکنالوجی تھی اور پھر یہ کہ اِس تیل کی ضرورت بھی اُنہی کو تھی، لیکن پیٹرو ڈالرز کی فراوانی نے اِن عرب صحراؤں کو جدید، خوش حال ممالک میں تبدیل کردیا۔

تیل و گیس کے ذخائر اِن ممالک کے لیے تو دولت اور ترقّی لائے ہی، ساتھ میں پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش جیسے ممالک کے شہریوں کے لیے بھی روزگار کا ذریعہ بنے۔ لیکن اسرائیل کے قیام اور مسئلۂ فلسطین نے یہاں جو بے چینی پیدا کی، وہ آج تک اِس علاقے کے عدم استحکام کا باعث ہے۔

مصر اور دیگر عرب ممالک نے صدر ناصر کی قیادت میں اسرائیل سے چار جنگیں لڑیں، لیکن پھر کیمپ ڈیوڈ جیسے معاہدے کرکے سکون سے بیٹھ گئے۔ایران میں انقلاب کے بعد لڑائیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ اسرائیل اور فلسطینی لیڈرشپ میں براہِ راست مذاکرات بھی سالوں چلتے رہے، لیکن پھر غزہ کے حالیہ سانحے اور ایران، اسرائیل جنگ نے دنیا میں بہت کچھ بدل دیا۔ امریکا، اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ اس کے بَل پر ہر قسم کی جارحیت کرتا ہے۔

جیسے جیسے مسلم ممالک کم زور ہوتے جا رہے ہیں، اسرائیل کے قدم آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین اور تیونس نے تو اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی قائم کرلیے، شاید اِس اُمید پر کہ مسئلۂ فلسطین کے حل کی کوئی راہ نکل آئے۔ مشرقِ وسطیٰ کے تیل کی اجارہ داری کی آج وہ صُورت نہیں، کیوں کہ اب امریکا میں اس کے برابر تیل نکل آیا ہے۔ پھر روس میں بھی، جو تمام تنازعات کے باوجود یورپ کا حصّہ ہے، تیل اور گیس کی بڑی مقدار نکلی ہے۔

یورپ نے تیل کی بندش کے بعد سے سبق سیکھ لیا اور متبادل انرجی کے بڑے منصوبوں پر کام شروع کیا۔ لہٰذا، اب اگر مشرقِ وسطیٰ کا تیل بند ہو یا منہگا ہو، تو یورپ، امریکا، روس اور چین پر اس کا اتنا اثر نہیں ہوگا، جتنا پاکستان، بنگلا دیش اور دیگر کم زور معیشتوں کے ممالک متاثر ہوں گے۔ اِس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ممالک مسلسل معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار رہتے ہیں۔

یہ قرضوں پر گزارہ کرتے ہیں اور ترقّی کے لانگ ٹرم منصوبوں سے دُور ہیں۔ اِن ممالک کے عوام اور لیڈر شپ جذباتی سیاست کرتی ہے اور معاشی ترقّی، جو درحقیقت ان کی بنیادی کم زوری ہے، اُس سے نجات کی فکر نہیں کرتے۔ نتیجہ ظاہر ہے، ہر چند سال بعد آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دوست ممالک کے پاس کشکول لیے حاضر ہونا پڑتا ہے۔

اب ایسے میں اگر یہ پُرامن طریقوں سے اپنے تنازعات کا حل تلاش نہیں کرتے، تو پھر عوام ہی خمیازہ بُھگتیں گے۔ دنیا کو موردِ الزام ٹھہرانے اور سازشی تھیوریز گھڑنے سے تو قومی ترقّی ہونے سے رہی۔ ترقّی کا بس ایک ہی راستہ ہے، محنت اور ٹیکنالوجی۔

ہم نے بار ہا اُن ممالک کی مثال دی، جو دو عالمی جنگوں کے بعد پس ماندہ ہی نہیں، تباہ حال تھے، لیکن آج دنیا کی طاقت وَر اکانومی بن چُکے ہیں۔جیسے جاپان، چین اور جرمنی۔ جاپان نے چین پر قبضہ کیاتھا، لیکن جب اُس پر ایٹم بم گرا، تو چین آزاد ہوگیا۔ کیا چین اور جاپان آج لڑ رہے ہیں؟ بس کبھی کبھی بیانات کی گولا باری ہوجاتی ہے، جب کہ باہمی تجارت پانچ سو بلین ڈالرز سے بھی زیادہ ہے۔

اِسی طرح چین اور امریکا میں دشمنی تھی، پھر پاکستان کی ثالثی میں نکسن بیجنگ گئے اور مائوزے تنگ سے ملاقات کی، آج چین اور امریکا میں نو سوبلین ڈالرز کا ٹریڈ ہے۔بھارت اور چین میں106 بلین ڈالرز کی باہمی تجارت ہو رہی ہے، جب کہ یہ دونوں ممالک دنیا کی تیز ترین معیشتوں میں شمار ہوتے ہیں، حالاں کہ دونوں ساٹھ کی دہائی میں جنگ بھی لڑ چُکے ہیں اور دونوں کے بیچ آج بھی ہمالائی سرحد پر تنازعات ہیں۔ اب ذرا مسلم ممالک کے حالات دیکھ لیں کہ سارے تنازعات یہیں ہیں۔ان کی قیادت اپنے عوام کو جذباتی تو کر دیتی ہے، لیکن اُس جرأت، حوصلے اور تدبّر سے عاری ہے، جو عوام کو امن و ترقّی دے سکے۔

جنگ کرنا آسان، لیکن ترقّی صبر آزما، محنت طلب اور بڑے عزم کی متقاضی ہے۔ یہ سبق اِن ممالک کو چین، یورپ اور امریکا سے سیکھنا چاہیے۔مسلم ممالک کے ماہرین اور تجزیہ کار یہی بتاتے ہیں کہ طاقت ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔ یہ جنگ جُو ملیشیاز جو صرف لڑائی اور مارنے، مرنے کے کام آتی ہیں، کِن ممالک میں پَل رہی ہیں، ذرا غور کرکے دیکھ لیں۔ یہ ملیشیاز ان ممالک کی فوجوں سے زیادہ طاقت وَر ہیں اور یہ معصوم عوام کے لیے مشکلات کا باعث ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں جنہیں ایران کی پراکسیز کہا گیا، اُنہوں نے لبنان، یمن اور شام میں کیا کیا گُل کِھلائے، سب کے سامنے ہے۔ ٹی ٹی پی نے بھارت کی شہ پر پاکستان کو کس طرح دہشت گردی کا مرکز بنایا، یہ بھی سب کے علم میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا چین کی کوئی ملیشیا ہے، کیا جاپان، جرمنی، یورپ کو ایسی تنظیموں کی ضرورت پڑتی ہے؟ سب کو مِل بیٹھ کر اِس عفریت سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔

مشرقِ وسطیٰ میں جارحیت ہوئی، ناانصافی کی انتہا ہوئی، بھارت کشمیر پر ظلم کی انتہا کر رہا ہے، لیکن مسائل کے حل کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا پڑے گا۔ امریکا چھے ہزار میل دُور ہے، روس خود اپنے معاملات میں اُلجھا ہوا ہے، چین ترقّی کے سِوا کسی طرف دیکھنے کو راضی نہیں، یورپ اپنے عوام کی خوش حالی میں مگن ہے، ایسے میں کوئی ہمارے معاملات اور تنازعات حل نہیں کرے گا۔ ہاں، زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ کبھی ٹرمپ، تو کبھی پیوٹن، سیز فائر کروا کے بھول جائیں گے۔ 

پھر یہ بھی سوچیں کہ اگر خود ہمیں تنازعات حل کرنے کی جلدی نہیں، تو دوسروں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر دوستی اور برادری کے نام پر اِن معاملات میں اُلجھ جائیں۔ اُن ممالک کے عوام سے پوچھیں، جو مہینوں، سالوں سے جنگیں اور پابندیاں بُھگت رہے ہیں۔ اِن ممالک کی قیادت کو اپنے عوام کے مفادات سامنے رکھنے چاہئیں اور اگر ان میں اتنی صلاحیت نہیں اور یہ صرف اپنی اندرونی سیاست ہی میں اُلجھ سکتے ہیں، تو پھر ایسی سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کا کیا فائدہ۔

یوں لگتا ہے، وہ باتیں جو ایک عام آدمی جانتا ہے، وہ ان رہنماؤں کو معلوم نہیں۔ہر وقت بڑی طاقتوں کا سہارا ڈھونڈنا، کیا قیادت کا یہی کام ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کے چھوٹے چھوٹے ممالک، جن کی آبادی ایک کروڑ سے بھی کم ہے، دنیا میں ترقّی کی مثال بن چُکے ہیں، جب کہ اِسی ایشیا کے دوسرے خطّوں میں کروڑوں کی آبادی کے ممالک تنازعات میں ایسے اُلجھے ہوئے ہیں کہ سب کچھ اِن ہی پر خرچ کر رہے ہیں۔

عالمی اداروں کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ سلامتی کاؤنسل شام کے مسلمانوں کا قتلِ عام روک سکی اور نہ ہی غزہ کے بے بس شہریوں کی مد کرسکی۔ یوکرین کے ساٹھ ہزار افراد کی موت روک پائی اور نہ ہی پاک، بھارت جنگ میں ثالثی کروا سکی۔ ایران، اسرائیل جنگ میں بھی اقوامِ متحدہ کوئی کردار ادا نہ کرسکی۔ اب بھی امن کی متلاشی دنیا کو ہوش نہیں آتا، تو پھر اپنا انجام خود ہی سوچ لینا چاہیے۔