عالمی منظر نامے پر نظر ڈالیں، تو دو معاملات ایسے ہیں، جن پر گزشتہ دو سال میں سب سے زیادہ بات چیت، مذاکرات، یہاں تک کہ جنگیں بھی ہوئیں۔ ایک غزہ اور دوسرا ایران۔ دیکھا جائے، تو یہ دونوں معاملات سیاسی طور پر باہم پیوست بھی ہیں۔ اگر اِن میں سے کسی ایک مقام پر جنگ ہو، تو دوسرے پر بھی اُس کے اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔
اِسی طرح اگر کوئی معاہدہ ہوتا ہے، تب بھی دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ ایران، غزہ میں حماس کا سب سے بڑا حمایتی رہا ہے۔ ایران گزشتہ صدی کے آخر میں عراق کے ساتھ دس سالہ جنگ بھی لڑ چُکا ہے۔ ایران نو کروڑ آبادی کا ایک اہم مُلک ہے، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں اِسے نظرانداز کیا جانا ممکن نہیں۔
اِسی طرح غزہ فلسطینیوں کی بیس لاکھ آبادی پر مشتمل خطّہ ہے۔ ایران اور اسرائیل کے مابین حالیہ بارہ روزہ جنگ، اسرائیل کے حملوں سے شروع ہوئی اور امریکی بم گرانے کے کلائیمکس تک پہنچی۔دل چسپ بات یہ ہے کہ اِن دونوں ممالک میں سیزفائر اور مذاکرات بھی امریکی صدر ٹرمپ ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔
اِس سے قبل بھی حماس اور اسرائیل میں طویل مذاکرات کے دَور ہوئے، جو ناکام رہے۔ یہ لڑائی تقریباً دوسال پہلے اُس وقت شروع ہوئی، جب حماس نے اسرائیل پر ایک حملہ کیا۔ اُن کے اہم رہنماؤں، اسماعیل ہانیہ اور یحییٰ سنوار وغیرہ کا کہنا تھا کہ’’بس بہت ہوچُکا، اب فلسطین کی آزادی کا وقت آگیا۔‘‘
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اُس اچانک حملے میں اُس کے بارہ سو، پچاس شہری ہلاک اور تین سو اغوا کیے گئے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے حملوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا، جس نے جارحیت، نسل کُشی اور تباہی کی وہ شکل اختیار کی، جس کی مثال کم ہی ملے گی۔
ان دو سالوں میں حماس کی تمام لیڈر شپ اسرائیلی حملوں میں ماری گئی۔ غزہ کے تقریباً 60ہزار شہری شہید ہوئے، جب کہ زخمیوں اور بے گھروں کی تعداد تو لاکھوں میں ہے۔ پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بن چُکا ہے۔ یہ ایک یک طرفہ لڑائی ہے، یعنی اسرائیل جس طرح چاہتا ہے، غزہ کے بے بس شہریوں کو نشانہ بناتا ہے۔
اُس نے اِن دنوں گولا بارود برسانے کے ساتھ غزہ کا بدترین محاصرہ بھی کر رکھا ہے، جس سے وہاں قحط کی سی صُورت ہے۔ لوگ پانی اور خوراک کے لیے مارے مارے پِھر رہے ہیں۔ پوری دنیا غزہ کو اِس مشکل سے نکالنے کی اپیلز کر رہی ہے۔فلاحی تنظیمیں متفّق ہیں کہ غزہ میں ایسا خوف ناک انسانی المیہ جنم لے چُکا ہے، جس کا تدارک شاید سالوں پر محیط ہو۔ شہر کی دوبارہ تعمیر اور بحالی کی باتیں تو بہت ہوتی ہیں، لیکن ابتدائی تخمینہ پچاس ارب ڈالرز سے زیادہ لگایا گیا ہے اور یہ رقم کون فراہم کرے گا، کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
بیانات دینے اور غزہ کے لیے جذباتی ہونے والے اب تک صرف کھانے پینے اور کچھ کپڑے وغیرہ پہنچانے تک ہی محدود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ممالک تو خود ڈالر، ڈالر کے محتاج ہیں۔ یاد آتا ہے کہ آزاد کشمیر میں بیس سال پہلے جو زلزلے سے تباہی آئی تھی، اُس میں بحالی کے لیے صرف 6ارب ڈالرز درکار تھے اور یہ رقم کس مشکل سے حاصل ہوئی، سب جانتے ہیں۔ غزہ میں امن اور سیز فائر کے لیے باربار مذاکرات ہو رہے ہیں۔ دوحا میں ہونے والے اِن مذاکرات میں حماس اور اسرائیل فریق کے طور پر آمنے سامنے ہیں، جب کہ امریکا بطور ثالث موجود ہے۔
کچھ ماہ قبل سیز فائر ہوا، جس کے نتیجے میں کچھ قیدیوں کا تبادلہ ہوا اور کچھ امدادی ٹرک بھی غزہ میں داخل ہو سکے، جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھے، لیکن پھر اسرائیل کی جانب سے حملے شروع ہوگئے۔ اِس ایک ٹھوس کوشش کے علاوہ دنیا محض بیانات ہی دیتی چلی آ رہی ہے۔ امریکا سے تو کوئی اُمید نہیں کہ وہ تو اسرائیل کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے، جب کہ سلامتی کاؤنسل، او آئی سی، شنگھائی فورم، برکس، یورپی یونین سمیت تمام عالمی فورمز اعلانات اور قرار دادوں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک نیتن یاہو تین مرتبہ وائٹ ہاؤس میں اُن سے مل چُکے ہیں۔ پھر حیرت اِس امر پر ہے کہ روس، چین، یورپ اور مسلم ممالک کی طرف سے غزہ میں نسل کُشی، ہلاکتوں اور اسرائیلی جارحیت پر بیانات تو اِتنے آچُکے ہیں کہ اُن کی گنتی بھی مشکل ہے، لیکن اِن کی جانب سے کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھایا جاسکا، جس سے اور کچھ نہیں، تو کم ازکم یک طرفہ جارحیت ہی بند ہوپاتی۔ کوئی بھی اسرائیل کا ہاتھ نہ روک سکا۔
روس اپنے مفاد کے لیے تو یوکرین میں چالیس مہینوں سے جدید ہتھیار اور فوج سمیت اُترا ہوا ہے، لیکن غزہ کے لیے اُس نے کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا۔ چین اور یورپ کے پاس دولت، ہتھیاروں اور سفارت کاروں کے انبار لگے ہوئے ہیں، لیکن غزہ کے بے گناہ شہری روز مارے جا رہے ہیں۔ مذاکرات کی خبروں سے اُن کی کچھ آس بندھتی ہے، مگر نئے حملوں سے پھر ٹوٹ جاتی ہے۔ کیا واقعی دنیا اور عالمی طاقتیں اتنی ہی بے بس یا بے حس ہیں کہ بیس لاکھ افراد کو اِس اذیّت سے نجات دلانے کے لیے بائیس مہینے بھی ناکافی ہیں۔
ایران کے حماس سے قریبی تعلقات کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں کہ اُس کی مالیاتی، سیاسی اور فوجی مدد سب ایران کی مرہونِ منّت ہے۔ اِسی طرح حزب اللہ، حوثی باغی اور دوسری ایرانی پراکسیز ہیں، جو لبنان، شام، عراق، یمن اور مشترقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک میں فعال رہیں۔ غزہ کی صُورتِ حال کے براہِ راست اثرات اِن ملیشیاز اور ایران پر بھی دیکھنے میں آئے۔ حماس کی تقریباً تمام لیڈر شپ شہید ہوچُکی ہے، جب کہ اُس کا انفرا اسٹرکچر بھی انتہائی کم زور ہوچُکا ہے۔
اسرائیل نے اسماعیل ہانیہ کو تہران کے ایک محفوظ ریسٹ ہاؤس میں نشانہ بنایا۔بعدازاں، اُس نے حزب اللہ کے خلاف محاذ کھولا اور اُس کے روح رواں، حسن نصراللہ کو لبنان کے بیچ میں نشانہ بنایا گیا۔ پھر یہ کہ حزب اللہ کے زیادہ تر جنگ جُو مارے جاچُکے ہیں اور وہ بھی اب زیادہ فعال کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہی۔
یہاں تک کہ لبنان میں، جہاں وہ سب سے بااثر قوّت تصوّر کی جاتی تھی، فوج سے بھی زیادہ طاقت وَر، بمشکل اپنا سیاسی کردار محفوظ کرنے کی کوششوں میں ہے۔ یہی حال یمن میں حوثی باغیوں کا ہے کہ اُن کی زیادہ تر تنصیبات تباہ ہوچُکی ہیں اور شاید اگر اُن پر باقاعدہ اسرائیلی اور امریکی حملے ہوں، تو اُن کے لیے بھی اپنا بچاؤ مشکل ہوگا۔
مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی جس جارحانہ پالیسی کا ذکر کیا جاتا رہا ہے، وہ اِس منظرنامے کے تحت اِن دنوں بڑی آزمائش سے دوچار ہے۔جنرل سلیمانی کے امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد کوئی ایرانی لیڈر اِس جارحانہ پالیسی کو جاری نہ رکھ سکا۔
یاد رہے، اِس پالیسی کے معمار بھی وہی تھے۔مشرقِ وسطیٰ میں گزشتہ دو برس سے جاری جنگ کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ لبنان میں حزب اللہ کا کردار تقریباً ختم ہوچُکا، جب کہ سب سے بڑا نتیجہ شام میں بشار الاسد خاندان کے53 سالہ اقتدار کا ڈوبنا ہے۔ بشار فرار ہوا اور روس نے اُسے صدر پیوٹن کے ذاتی مہمان کے طور پر پناہ دی۔ اِسی کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں روس کا آخری فوجی اڈّا بھی بند ہوگیا۔شامی خانہ جنگی میں ایران اور روس کا بنیادی کردار رہا، جس کے دَوران پانچ لاکھ افراد ہلاک اور ایک کروڑ سے زیادہ شامی بے گھر ہوئے۔
یہ دونوں ممالک، ایران اور روس ہی بشار الاسد کے اقتدار کو سہارا دیتے رہے اور اِس ضمن میں ملیشیاز کا اہم کردار تھا، جو حکومتی فوجوں کے شانہ بہ شانہ لڑتی رہیں۔ بدلتی صُورتِ حال کے سبب ایران کو براہِ راست اسرائیل کے مقابلے میں آنا پڑا اور انقلاب کے پینتالیس سال بعد، گزشتہ سال پہلی مرتبہ اسرائیل کے خلاف جوابی فوجی کارروائی کی، جس میں دو ہزار میزائلز اور ڈرونز استعمال ہوئے۔ یہ کارروائی تہران میں اسماعیل ہانیہ کے قتل کے بعد کی گئی تھی۔
پھر اسرائیل اور ایران کے درمیان حملوں کا سلسلہ چل پڑا، جس کی آخری کڑی وہ بارہ روزہ جنگ تھی، جس میں امریکا نے بھی اسرائیل کی طرف سے شرکت کی، لیکن پھر صدر ٹرمپ کے اچانک اعلان کے بعد ایران اور اسرائیل میں سیز فائر ہوگیا۔ اِس بارہ روزہ جنگ سے پہلے ایران اور امریکا کے درمیان دوبارہ نیوکلیئر ڈیل کے لیے مذاکرات ہو رہے تھے۔ ایران کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات آخری مراحل میں داخل ہوچُکے تھے کہ اسرائیلی حملے نے مذاکراتی عمل سبوتاژ کردیا۔
اب ایک مرتبہ پھر مشرقِ وسطیٰ میں مذاکرات کا موسم ہے۔حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ پر مذاکرات آخری مراحل میں داخل ہوچُکے ہیں اور عین ممکن ہے کہ اِن سطور کی اشاعت تک کوئی باقاعدہ اعلان بھی ہوچُکا ہو۔ اِس ضمن میں امریکی صدر ٹرمپ کے اُس دباؤ کا بڑا دخل ہے، جو وہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو پر سیز فائر کے لیے ڈال رہے ہیں۔ پہلے بھی ایک سیز فائر ہوا تھا، لیکن جلد ہی دوبارہ جنگ شروع ہوگئی۔
بات یہ ہے کہ اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی چھوڑنے پر تیار نہیں۔ اس کا مطالبہ ہے کہ حماس غزہ کو چھوڑ دے اور مکمل طور پر سرینڈر کرے۔ واضح رہے، غزہ کی پٹّی فلسطینی اتھارٹی کا حصّہ ہے، جس میں مغربی کنارا یا ویسٹ بینک بھی شامل ہے۔ مغربی کنارے پر محاذِ آزادیٔ فلسطین کی حُکم رانی ہے اور وہی اِس وقت فلسطینی اتھارٹی تسلیم کی جاتی ہے، جس کے صدر محمود عباس ہیں۔ جب حماس اور پی ایل او میں تفریق پیدا ہوئی، تو حماس کے پاس غزہ اور محاذ کے پاس مغربی کنارے کا علاقہ آگیا۔
یہاں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ مغربی کنارے میں بھی لاکھوں فلسطینی آباد ہیں، تاہم اُن کا حماس کی جنگ میں کوئی کردار نہیں، سوائے دوسرے ممالک کی طرح اسرائیل کی مذمّت اور بیانات کے۔ فلسطین کے مسئلے کے حل کے طور پر اکثر دو ریاستی تقسیم کی بات کی جاتی ہے، یعنی اسرائیل اور فلسطین۔ یہ فلسطینی ریاست، دونوں حصّوں، غزہ اور مغربی کنارے پر مشتمل ہوگی، ویسے ہی جیسے یاسر عرفات نے کیمپ ڈیوڈ ٹو معاہدے کے تحت قائم کی تھی۔
جب ہم فلسطین کی آزادی کی بات کرتے ہیں، تو اُس میں سارے فلسطینی شامل ہوتے ہیں۔ جو فلسطینی غزہ میں ہیں یا بیرونِ مُلک دربدر ہیں، اُن تمام کو اِس ریاست کا حصّہ بننے کا حق حاصل ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ امریکا اور بڑی طاقتوں سمیت اقوامِ متحدہ کے تین چوتھائی رُکن ممالک ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کا بار بار اعلان کرچُکے ہیں۔
دوسری طرف، امریکا اور ایران بھی نیوکلیئر ڈیل کے لیے دوبارہ مذاکرات کی میز پر آنے کی ہامی بَھر رہے ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ اُسے اِس امر کی ضمانت چاہیے کہ مذاکراتی عمل کے دوران اور اس کے بعد اسرائیل اس پر کوئی حملہ نہیں کرے گا۔اب یہ ضمانت امریکا ہی فراہم کر سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ نیوکلیئر ڈیل کے لیے کوشاں ہیں اور اُن کا دعویٰ ہے کہ امریکی بم حملوں میں ایران کی جوہری تنصیبات بہت حد تک تباہ ہوچُکی ہیں، جب کہ دوسری جانب ایران اور کچھ مبصّرین کا کہنا ہے کہ افزودہ یورینیم، حملے سے پہلے ہی کسی خفیہ مقام پر منتقل کی جا چُکی تھی اور ایران دوبارہ اپنا نیوکلیئر پروگرام شروع کرسکتا ہے۔
لیکن ساتھ ہی ایران کے رہبرِ اعلیٰ اور تمام سیاسی قیادت کا اصرار ہے کہ اُن کا ایٹمی پروگرام پُرامن ہے اور بم بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ایرانی صدر نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ایران اور امریکا ڈیل کے بہت قریب تھے، مگر اسرائیلی حملے نے سب کچھ تباہ کردیا۔ بہرحال، دونوں فریق اب پھر مذاکرات کے لیے راضی ہیں۔یاد رہے کہ جب پہلی نیوکلیئر ڈیل ہوئی تھی، تو اُس میں ایک طرف ایران اور دوسری طرف امریکا، روس، چین، فرانس، برطانیہ اور جرمنی پر مشتمل گروپ تھا۔
اِس ڈیل کے تحت ایران نے یورینیم افزودگی کو پانچ فی صد کی حد میں رکھنے اور ایٹمی انسپکٹرز سے معائنے پر رضامندی کا اعلان کیا تھا۔ اُسے اِس ڈیل کے عوض امریکا میں منجمد چالیس ارب ڈالرز اور دنیا کے کئی ممالک تک رسائی حاصل ہوئی۔یہ اوباما اور حسن روحانی کا دَور تھا۔ بعدازاں، صدر ٹرمپ نے اِسے ناقص معاہدہ کہہ کر مسترد کردیا اور امریکا اس ڈیل سے باہر ہوگیا، یہ صدر ٹرمپ کا پہلا دَور تھا۔اب دوبارہ ماضی سے بہتر معاہدے تک پہنچنے کی تگ و دو ہو رہی ہے۔
جب پہلا معاہدہ ہوا تھا، تو ایران فوجی طور پر مضبوط تھا، تاہم اقتصادی طور پر حالت دگرگوں تھی۔ اب اُس کے دونوں شعبے ابتری کا شکار ہیں، جب کہ اس کی پراکسی ملیشیاز بھی بے اثر ہوچُکی ہیں۔ البتہ، کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی صُورت میں وہ کوشش کرسکتا ہے کہ کسی طرح ایٹمی ہتھیار حاصل کر کے دوبارہ برتری حاصل کرلے، لیکن اب سیاسی صُورتِ حال میں بھی نمایاں تبدیلی واقع ہو چُکی ہے۔ یاد رہے کہ پہلی نیوکلیئر ڈیل پر عرب ممالک کو تحفّظات تھے، کیوں کہ اُنہیں اعتماد میں لیے بغیر معاہدہ ہوا تھا اور وہ ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں برتری سے خوف زدہ تھے۔
شاید یہی خوف اُنہیں اسرائیل کے ساتھ’’ ابراہام معاہدے‘‘ کی طرف دھکیلتا رہا، لیکن اب سعودی، ایران تعلقات کے بعد بہت کچھ بدل چُکا ہے اور عرب ممالک نے بھی اسرائیلی حملوں کی مذمّت کی تھی۔ یورپی ممالک، روس اور چین سب ہی یہ چاہیں گے کہ ایران اور امریکا کے مابین مذاکرات کام یاب ہوں، کیوں کہ ایک تو ایران کی اقتصادی پوزیشن کسی جنگ کی متحمّل نہیں ہوسکتی، دوم، اُسے بحالی کے لیے بھی اسپیس چاہیے۔
اِسی لیے ایران اور وہاں کے عوام کی بھلائی چاہنے والوں کی یہی خواہش ہے کہ جنگ کا یہ قصّہ ختم ہو۔ ایرانی سیاسی قیادت اب بہت فعال نظر آتی ہے اور روحانی دَور کی طرح وہی مذاکرات کو لیڈ کر رہی ہے۔ سیاسی قوّتوں کا آپس میں فیصلے تک پہنچنا آسان ہوتا ہے کہ اُن میں لچک ہوتی ہے اور وہ’’ کچھ لو، کچھ دو‘‘ کے اصول کو اچھی طرح جانتی ہیں۔