اسلام آباد : (انصار عباسی)… وزیر اعظم شہباز شریف نے چینی مافیا کیخلاف ٹیکس کے سخت نفاذ کے ذریعے پہلا بڑا وار کیا ہے، لیکن مافیا نے بھی جوابی حملہ کرتے ہوئے ملکی مارکیٹس کو نشانہ بنایا ہے، جس کے نتیجے میں چینی کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
یہ صورتحال نئی معاشی بے چینی کو جنم دے رہی ہے اور حکومت کے عزم کو کڑی آزمائش میں ڈال رہی ہے۔ وزیراعظم، جن کے اپنے خاندان کی چینی کی صنعت سے پرانی وابستگی رہی ہے، نے سیاسی اور مالی لحاظ سے مضبوط سمجھے جانے والے اس شعبے سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
چینی مافیا کیخلاف وزیراعظم کا عوامی موقف حیران کن ہونے کے ساتھ باعث امید بھی معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ ایف بی آر نے شوگر ملز کی جانب سے چینی کی فروخت کو دستاویزی شکل دینے اور ان سے ٹیکس وصولی میں ریکارڈ کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن صارفین کی سطح پر اس کے اثرات برعکس ہیں۔
ریٹیل مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، جس سے ریونیو ریکوری مہم سے حاصل ہونے والا کوئی بھی سیاسی نیک نیتی کے اثرات زائل ہوگئے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں یہ اضافہ محض اتفاق نہیں۔
شہباز شریف کی سابق حکومت کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، جو اس وقت حکومت اور نون لیگ سے اختلاف رکھتے ہیں، نے اس بارے میں ایک دلچسپ بیان دیا ہے۔ اگرچہ وہ اِس وقت حکومت کی چینی پالیسی پر تنقید کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے شہباز شریف کے ساتھ کام کے دوران اپنے تجربے سے یہ انکشاف کیا کہ وزیراعظم نے چینی مافیا کے دباؤ کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے۔
بلکہ انہوں نے مفتاح سے نجی طور پر کہا تھا کہ چینی برآمد نہ ہونے دیں۔ دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے مفتاح کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگا کہ وزیراعظم پیسے کے لالچی تھے، بلکہ انہوں نے مجھے کہا کہ چینی کی صنعت پر سپر ٹیکس لگا دوں، میں سپر ٹیکس کیخلاف تھا، لیکن ظاہر ہے وزیراعظم کا فیصلہ غالب رہا۔
چینی کے حوالے سے موجودہ صورتحال اور وزیراعظم یہ جنگ جیتیں گے یا ہاریں گے، اس حوالے سے اپنے تحریری بیان میں مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ جب میں شہباز شریف کے دور حکومت میں وزیر خزانہ تھا، تب بھی چینی کی برآمد کی اجازت دینے کا سوال آیا تھا۔ اور اس وقت ہمیں واقعی زرمبادلہ کی ضرورت تھی۔
لیکن اگرچہ وزیراعظم نے ان تمام افراد سے ملاقات کی جو برآمدات کے خواہاں تھے، انہوں نے نجی طور پر مجھے کہا کہ برآمدات کی اجازت نہ دی جائے۔ پھر طارق بشیر چیمہ کو چینی برآمد کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا، اور انہوں نے بھی چینی انڈسٹری کے دیے گئے اعدادوشمار کو چیلنج کیا اور کمشنرز سے تصدیق کرانے کی بات کی۔
مختصراً، چیمہ صاحب کوئی کٹھ پتلی تھے اور نہ دباؤ میں آ کر برآمدات کی اجازت دینے والے۔ مجھے نہیں لگا کہ وزیراعظم پیسے کے لالچی تھے، بلکہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ چینی کی صنعت پر سپر ٹیکس عائد کروں۔ میں اس کیخلاف تھا، لیکن ظاہر ہے وزیراعظم کا فیصلہ غالب رہا۔
موجودہ صورتحال پر مفتاح نے کہا کہ اس مرتبہ مصدق ملک کی جگہ اسحاق ڈار کو چینی برآمد کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا۔ شاید ایک لاکھ ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دینا ٹھیک تھا، لیکن جب قیمتیں تیزی سے بڑھنا شروع ہوئیں تو برآمدات کی اجازت ختم ہونا چاہئے تھی۔ لیکن اس مرتبہ لگتا ہے کہ قیمتیں بڑھانے کا ارادہ تھا اور برآمدات کی اجازت قیمتیں بڑھنے کے باوجود دی جاتی رہی۔
دوسری طرف، رابطہ کرنے پر حکومت کی جانب سے دی نیوز کو بتایا گیا ہے کہ چینی اور دیگر صنعتوں کیخلاف حکومت کی ٹیکس نفاذ مہم نے غیرمعمولی نتائج دیے ہیں۔
جب ایف بی آر نے پیداواری مقامات پر فزیکل مانیٹرنگ ٹیمیں، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹمز اور ویڈیو نگرانی تعینات کی تو چینی کے شعبے میں دستاویزی فروخت (ڈاکومنٹڈ سیلز) ایک سال میں 107؍ ارب سے بڑھ کر 152؍ ارب روپے ہو گئی، یعنی 41 فیصد اضافہ ہوا۔ ان کوششوں کے ذریعے اندازاً 57 ارب روپے کا ٹیکس خلا ختم کیا گیا، حکومتی ذرائع نے بتایا۔
ذرائع کے مطابق، اسی طرح کی کارروائیاں دیگر صنعتوں (سیمنٹ، تمباکو، مشروبات، اور ہیچری) میں بھی کی گئیں، جس سے ظاہر شدہ آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوا۔ تمباکو کے شعبے میں 103؍ فیصد اضافہ دیکھا گیا، سیمنٹ سے آمدنی دوگنا ہو گئی، اور مشروبات میں 23؍ فیصد اضافہ ہوا۔ حتیٰ کہ پولٹری ہیچریز نے صرف ایک ماہ میں 50؍ فیصد اضافہ دکھایا۔
حکومتی ذرائع نے بتایا کہ مجموعی طور پر، ان کامیابیوں نے پاکستان کے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو صرف ایک مالی سال میں 8.8؍ فیصد سے بڑھا کر 10؍ اعشاریہ 3؍ فیصد کر دیا۔ ایف بی آر کے مطابق، رواں سال کے ٹیکس ریونیو میں 15؍ فیصد اضافہ صرف نفاذ کے ذریعے حاصل ہوا، جبکہ صرف 7؍ فیصد اضافہ حقیقی معاشی ترقی یا مہنگائی سے متعلق تھا۔
آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی کارٹیل کا قیمتوں میں ہیراپھیری سے کیا گیا ردعمل ایک گہری جنگ کو بے نقاب کرتا ہے جو صرف ٹیکس وصولی کی نہیں، بلکہ ریاستی عملداری اور مارکیٹ کی مضبوط قوتوں کے درمیان ہے۔ انفورسمنٹ کے نتیجے میں حاصل کامیابیوں کے باوجود، حکومت چینی کی قیمتوں کو قابو میں لانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے، جو عام پاکستانیوں کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔
ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ یہ ایک کلاسیکی جوابی وار ہے، [شوگر انڈسٹری کو] ٹیکس دینے پر مجبور کیا گیا، تو اب وہی رقم مارکیٹ کے ذریعے عوام سے واپس لے رہے ہیں۔ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ وزیراعظم اس وقت ایک سیاسی اور معاشی مخمصے کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگر حکومت دباؤ میں آ کر پسپائی اختیار کرتی ہے تو پیغام واضح ہو گا: اعداد و شمار چاہے کچھ بھی ہوں، مارکیٹ پر کارٹیل کی گرفت برقرار ہے۔ لیکن اگر ریاست اپنا دباؤ برقرار اور قیمتوں کو قابو میں لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو طاقتور شوگر انڈسٹری کیخلاف یہ ایک نادر کامیابی ہوگی۔
ایک ذریعے کے مطابق، ملک میں سب سے بڑا شوگر پروڈیوسر جے کے ٹی (جہانگیر ترین) گروپ ہے، جس کا مارکیٹ شیئر تقریباً 15؍ فیصد ہے۔ اس کے بعد اومنی گروپ ہے، ملکی سطح پر مجموعی پیداوار میں اس گروپ کا حصہ 12؍ فیصد ہے۔ وزیر صنعت ہارون اختر ایک بڑی شوگر مل کے مالک ہیں، شہباز شریف کے خاندان کی دو ملیں ہیں، نواز شریف کے خاندان کی ایک مل ہے، اور تینوں بڑی جماعتوں کے بااثر افراد کی بھی شوگر ملیں ہیں۔
یہ پاکستان کی سب سے طاقتور لابی ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کا شوگر انڈسٹری میں حصہ چھوٹا ہے۔ ایف بی آر کے ایک سینئر افسر نے دی نیوز کو بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے چینی کے حوالے سے اس صورتحال کی نگرانی ہفتہ وار اجلاسوں کے ذریعے کی۔
انہوں نے کہا کہ پہلے دن سے ہی ان کا اصرار اس بات پر تھا کہ اس شعبے میں کسی طرح کی ٹیکس چوری برداشت نہیں کی جائے گی، پھر چاہے ان کے اپنے خاندان کا کوئی فرد ہی کیوں نہ ملوث ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ رواں سال ایف بی آر کی جانب سے چینی کے ذخائر، پیداوار اور فروخت کی نگرانی نہ صرف وزیراعظم نے خود مسلسل کی، بلکہ انہوں نے آئی بی، ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیوں کو بھی چینی کے کاروبار اور ایف بی آر کے اہلکاروں کی کارکردگی کی مسلسل نگرانی کی ہدایات دیں۔