• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزارت دفاع نے 9؍ سال میں 51؍ آڈٹ پیراز میں سے ایک پر بھی عمل نہ کیا

انصار عباسی

اسلام آباد :…آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے وزارت دفاع کی تازہ ترین آڈٹ رپورٹ میں ایک ٹیبل شامل کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2011-12ء سے 2021-22ء تک کے 9؍ برسوں کے دوران وزارت نے 51؍ آڈٹ پیراز اور ایک قابلِ عمل پوائنٹ میں سے ایک پر بھی عمل نہیں کیا۔ رپورٹ میں وزارت دفاع کے ماتحت ادارہ پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کے کام کاج میں 30؍ سالہ ریگولیٹری بے ضابطگیوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ تاہم، مالی سال 2023-24ء کیلئے اے جی پی کی آڈٹ رپورٹ میں زیرِ جائزہ مدت کے دوران دفاعی بجٹ میں کسی بڑی مالی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ اس کے برعکس، رپورٹ میں مجموعی طور پر 31؍ کروڑ 40؍ لاکھ روپے کی بچت ظاہر کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 1994ء میں پی ایم ایس اے ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی آج تک اس ایکٹ کی شق 18؍ اور 19؍ کے تحت لازمی ضوابط و قواعد بنانے میں ناکام رہی ہے۔ اگرچہ قانون کے تحت وفاقی حکومت اور ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل دونوں کیلئے ان قواعد و ضوابط کو سرکاری گزیٹ میں شامل کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے، لیکن تاحال ایسا کوئی فریم ورک نہیں بنایا گیا۔ آڈیٹرز نے اس ناکامی کو ’’سنگین کوتاہی‘‘ اور قانونی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) نے 9؍ دسمبر 2024ء کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کو ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر قواعد سازی کا عمل شروع کرے۔ اے جی پی رپورٹ میں ’’پی اے سی ہدایات پر عملدرآمد کا اسٹیٹس‘‘ کے عنوان سے ایک جدول شامل ہے جو وزارت دفاع کے آڈٹ میں سب سے سنگین نوعیت کا مشاہدہ معلوم ہوتا ہے۔ اس جدول کے مطابق، 2011-12ء سے 2021-22ء تک 9؍ برسوں میں مجموعی طور پر 51؍ آڈٹ پیراز کے اعتراضات اٹھائے گئے اور ایک مرتبہ ’’ایکشن ایبل پوائنٹس‘‘ جاری کیے گئے، لیکن ان میں سے کسی ایک آڈٹ پیرا پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ جدول میں عملدرآمد کے حوالے سے تمام اندراجات ’’صفر‘‘ (کوئی نہیں) دکھائے گئے ہیں۔ اے جی پی کے آڈٹ نے مزید انکشاف کیا کہ پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی نے پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019ء کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 69؍ لاکھ 50؍ ہزار روپے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں جمع نہیں کرائے۔ یہ رقم ان 3؍ کروڑ 75؍ لاکھ 30؍ ہزار روپے میں سے تھی جو بھارتی ماہی گیروں سے ضبط کی گئی کشتیوں اور مچھلیوں کی نیلامی سے حاصل ہوئی تھی۔ تاہم، صرف 3؍ کروڑ 5؍ لاکھ 80؍ ہزار روپے قومی خزانے میں جمع کرائے گئے، جبکہ باقی رقم کا کوئی حساب نہیں دیا گیا۔ ٹریژری سنگل اکاؤنٹ سسٹم، جو 2020ء میں وزارت خزانہ نے لازمی قرار دیا تھا، کے تحت تمام سرکاری اداروں پر لازم ہے کہ وہ اپنی آمدن مرکزی خزانے میں جمع کرائیں۔ آڈیٹرز نے زور دیا کہ میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کی جانب سے سرکاری پیسے کو روکنا غیر قانونی عمل ہے اور اسے فوراً ختم کیا جانا چاہیے۔ وزارت دفاع کے اخراجات سے متعلق آڈٹ رپورٹ کا مثبت پہلو اس کی بچت ہے۔ مالی سال 2023-24ء میں وزارت کو 1.9؍ کھرب روپے کا بجٹ دیا گیا، جس میں سے 31؍ کروڑ 40؍ لاکھ روپے بچت ظاہر کی گئی۔ یہ بچت زیادہ تر جاری اور ترقیاتی اخراجات کے کم استعمال کی وجہ سے ہوئی۔ بدھ کو وزارت اطلاعات سے درخواست کی گئی کہ وہ اے جی پی رپورٹ میں وزارت دفاع کی جانب سے آڈٹ پیراز پر عمل نہ کرنے سے متعلق جواب دے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ وہ جمعرات کو وزارت دفاع کا جواب فراہم کریں گے، تاہم یاد دہانی کے باوجود جمعرات کو کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اس سے قبل، وفاقی حکومت کے آڈٹ پر مبنی دی نیوز کی خبر کے حوالے سے ایک سرکاری ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ آڈٹ رپورٹس سب سے پہلے ڈی اے سی میں زیرِ بحث آتی ہیں، جس کی صدارت پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر کرتے ہیں۔ زیادہ تر آڈٹ مشاہدات ڈی اے سی کی سطح پر طے پا جاتے ہیں اور پھر انہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو حتمی منظوری کیلئے بھیجا جاتا ہے۔ ایسی سفارشات پی اے سی عموماً قبول کر لیتی ہے۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’’لہٰذا، نام نہاد بے ضابطگیاں کسی طور پر حتمی نہیں ہوتیں۔ پی اے سی نے پہلے ہی تمام پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران کو ہدایت دی ہے کہ وہ ماہانہ بنیادوں پر ڈی اے سی کا اجلاس منعقد کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ آڈٹ مشاہدات ڈی اے سی کی سطح پر نمٹائے جا سکیں۔

اہم خبریں سے مزید