• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

10مئی 2025ء کو برّصغیر پاک وہند میں جو کچھ ہوا۔ وہ ایک معجزے سے کم نہیں۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ معاشی ، سیاسی اور معاشرتی بحرانوں میں لڑ کھڑاتا پاکستان ، اپنے سے ہر لحاظ سے مضبوط ہندوستان کودُم دبا کر بھاگنے اور جنگ بندی کی اپیلیں کرنے پر مجبور کر دئیگا ۔ اسکی فضائیہ کے جے ایف تھنڈر کی ابابیلیں ، بھارت کے رافیل ہاتھیوں کو کھائے ہوئے بھُس کی مانندبنا دیں گی۔ صرف یہی نہیں کہ پاکستان کی بہادر مسلح افواج نے میدان ِ جنگ میں یہ انہونا کارنامہ سرانجام دیا بلکہ سفارتی محاذ پر بھی موجودہ حکمرانوں نے شاندار کامیابیاں سمیٹیں اور امریکہ، چین، ترکیہ ، سعودی عربیہ ، آذر بائیجان اور یورپی یونین سمیت دنیا کے اکثر ممالک نے اس جنگ میں پاکستان کےموقف کی تائید کی کہ بغیر کسی ثبوت کے کسی ملک پر حملہ کردینا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔بھارت کی انتہا پسند مودی حکومت ماضی قریب میں کنیڈا، امریکہ ، پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک کے اندر دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملّوث رہی ہے۔ کنیڈا اور امریکہ نے توکھل کر جسکی مذمت بھی کی۔ یہی وہ بنیادی نکتہ تھا جسے حکومت نے کامیابی کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے رکھا۔ جسکی وجہ سے بھارت کے دیرینہ دوست روس نے بھی اس مرتبہ بھارت نواز رویّہ اپنانے کی بجائے غیر جانبداری کا راستہ اپنایا جس نے بھارت کو پور ی دنیا میں تنہا کردیا۔ اور وہ اپنے مقاصد میں ناکام ہوگیا۔ بھارتی اپوزیشن نے بھی مودی کی ناکام خارجہ پالیسی پر اسے آڑے ہاتھوں لیا جبکہ مودی پورا وقت بے بسی کی تصویر بنا نظر آیا۔ یہ سارا منظر نامہ 2019میں ہونے والے بالاکوٹ واقعے سے بالکل مختلف نظر آیا جب ہندوستان نے آزاد کشمیر پر فضائی حملہ کیا تھا اور ہمارے شاہینوں نے ان کا طیارہ بالاکوٹ کے مقام پر مار گرایا تھا اور اس کے پائلٹ ابھینندن کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا تھا۔ لیکن اس وقت کی عمران حکومت اور فوجی سربراہ جنرل قمر باجوہ اس قدر گھبرا گئے گویا انہوں نے بھارتی حملہ آور طیارے کو اپنے علاقے میں گرا کر کوئی جرم کیا ہو۔ انہوں نے بڑےاحترام سے اس پائلٹ کو اگلے ہی دن بھارت کے حوالے کردیا۔بھارتی وزیرِ اعظم مودی نے پاکستان کے اس معذرت خواہانہ رویّے پر شکست کے باوجود ابھینندن کو بہادری کا میڈل عطا کردیا۔ اس وقت کی پاکستانی حکومت کایہ رویّہ پاکستانی افواج کے جوانوں اور عام پاکستانیوںکیلئے مایوس کن اور حوصلہ شکن تھا۔

اس مرتبہ دس مئی کے واقعے کے بعد پوری دنیا خصوصاََ برّصغیر پاک وہند میں دو ر س تبدیلیوں کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ اس کا پہلا اثر یہ ہوا کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی جس نے گزشتہ عشرے کے دوران خود کو ایک نا قابلِ تسخیر دیوتا کے طور پر بھارتی عوام کے سامنے پیش کیا تھا۔ اچانک ایک ناکام اور شکست خوردہ شخص کے طور پر سامنے آیا۔ جسکی فوجی اور سیاسی حکمتِ عملی بُری طرح ناکام ہو گئی اور اسکے بھارت کو دنیا کی اُبھرتی ہوئی عالمی طاقت بنانے کے دعووں کی قلعی کُھل کر رہ گئی جس سے بھارتی عوام میں یایوسی اور بد دلی پھیل گئی ۔ کیونکہ ایک دن پہلے تک بھارت کا مودی میڈیا بھارتی عوام کو کراچی لاہور اور اسلام آباد پر قبضے کی نوید سنا رہا تھا۔ اس صورت ِ حال نے بھارتی اپوزیشن خصوصاََ کانگریس کو بھی فاشٹ مودی کا اصلی چہرہ بھارتی عوام کے سامنے پیش کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔ کہ کس طرح مودی ہر الیکشن سے پہلے پاکستان کے خلاف جارحیّت کا ارتکاب کرکےووٹروں پر اثر انداز ہوتا رہا۔ یہی نہیں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے تو بھارتی انتخابات پر بھی سوال اٹھا دئیے کہ مودی نے بھارتی انتخابات میں ایک سو کے قریب نشستوں پر دھاندلی کی جسکے ثبوت بقول راہول گاندھی انکے پاس موجود ہیں جسے وہ عنقریب عوام کے سامنے پیش کریں گے۔ جو ایٹم بم سے کم نہیں ہوں گے یعنی حالیہ دس مئی نے مودی کی عظمت کا بت پاش پاش کردیا ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ یا تو مودی آئندہ الیکشن میں حصّہ نہیں لے گا یا اگر اس نے ایسا کیا تو مودی اور اسکی انتہا پسند جماعت الیکشن ہار جائیگی۔ یہ سب کچھ پاکستان کیلئے 10مئی کا سب سے بڑا تحفہ ہوہے کہ اس مختصر سی جنگ کے نتیجے میں طویل مدّت سے سر دخانے میں پڑا مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر فلیش پوائنٹ بن گیا۔ دوسری طرف پاکستان میں کافی عرصے کے بعد فوج اور عوام ایک دوسرے کے قریب اور شانہ بشانہ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ لیکن فوج اور عوام میں اس قربت کو برقرار رکھنے اور انہیں مزید ایک دوسرے کے قریب لانےکیلئے سیاسی میدان میں مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو ایڈہاک ازم کی بجائے آئینی طریقے سے اپنی حالیہ کامیابیوں کو مستحکم کر نا ہوگا۔ ہمیں پسند ہو یا نا ہو لیکن زمینی حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ریاستی اداروں کی طرح سیاسی جماعتیں خصوصاََ پی ٹی آئی اور عمران خان اس ملک کے اہم سٹیک ہولڈرز ہیں جنہیں قومی دھارے میں لانے اور ریاستی امور کا حصّہ بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔ کیونکہ سیاسی استحکام کے بغیر حاصل ہونے والی معاشی اور سفارتی کامیابیاں دیر پا ثابت نہیں ہو سکتیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز جس میں تمام ریاستی ادارے بشمول فوج، بیور کریسی ، عدلیہ اور سیاسی جماعتیں شامل ہیں انہیں باہم مل کر ایسا آئینی بندوبست کرنا چاہیے کہ 10مئی کو حاصل ہونے والی کامیابیوں کا تسلسل نہ ٹوٹنے پائے ۔ آج کا شعر

بہاروں کا زمانہ بھی کبھی تو آہی جا تاہے

ہمیشہ ہی خزاں تو باغ کی مالی نہیں رہتی

تازہ ترین