تحریر…منصور رضی برصغیر میں ٹریڈ یونین تحریک کے بانی محنت کشوں کے دانشور معروف ترقی پسند سوشلسٹ نظریات مزدور کسان راج کیلئے مسلسل جنگ لڑتے ہوئے بابائے محنت کشاں مرزا محمد ابراہیم 11 اگست 1999ء کو اپنے شہر جہلم کے قریب ایک گاؤں کالا گجراں میں پاکستان کے محنت کشوں کو یتیم کر گئے، آج ان 26 برس میں حاصل کردہ حقوق محنت کشوں سے چھینے جا رہے ہیں، آج ریلوے سمیت بڑے بڑے قومی اداروں کو فروخت کیا جا رہا ہے، پاکستان اسٹیل، پی آئی اے، بینکوں اور گیس کمپنیوں سمیت 69 قومی ادارے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت غیر ملکیوں کے ہاتھوں بیچے جا رہے ہیں، آج مرزا محمد ابراہیم بہت یاد آ رہے ہیں، ٹریڈ یونین تحریک دم توڑ رہی ہے ،جمہوریت کے نام پر بڑے بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار فوجی جرنیل بیورو کریٹ حکمران بنے ہوئے ہیں، ملک میں بھوک، غربت، جہالت ،بیماری، بیر وزگاری سے تنگ غریب عوام خود کشیاں کر رہے ہیں اور دوسری جانب حکمران طبقہ لوٹ مار اور کرپشن میں لپٹا ہوا ہے، مقدمات چل رہے ہیں ،کئی ایک جیل میں بندہیں، کئی ایک ملک سے فرار ہو کر یورپ،امر یکہ، انگلستان، لندن اور دبئی میں ملکی دولت لوٹ کر شاندار زندگی گزار رہے ہیں، لیکن آج سے 62سال پہلے تو ایسا نہیں تھا، جب مرزا ابراہیم جہلم کے قریب کالا گجراں میں ایک بے زمین کسا ن عبداللہ کے گھر پیدا ہوئے،ہندوستان کے وزیر اعظم اندر کمال گجرال بھارتی فوج کے جنرل اروڑاسنگھ اور ہندوستان کے موجود شاعر اور دانشور گلزار بھی اسی دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں۔ پنجاب کی یہ دھرتی فوجی جوان بھی بڑی تعداد میں پیدا کرتی رہی ہے، یہاں مرزا ابراہیم جیسا ایک باغی بھی پیدا ہوا تھا جو بعد میں برصغیر کا ایک معروف مزدور رہنما سیاسی رہنما بنا، جس نے برصغیر کے محنت کشوں کیلئے کئی ایک مراعات دلوائیں، جن میں پنشن اور گریجویٹی کا حق، حق ہڑتال، ہسپتال میں مریضوں کا علاج، سالانہ چھٹیوں سمیت محنت کشوں کو ٹریڈ یونین کا حق اور سر اٹھا کر زندہ رہنے کا حق دلوایا۔ مگر آج وہ مراعات ختم کی جارہی ہیں۔ مرزا ابراہیم انسانی حقوق کے علمبردار اور انسانی برابری کے انصاف پر مبنی ایک غیر طبقاتی نظام اور سوشلزم کے حامی تھے اور وہ ساری عمر اس کیلئے جد و جہد کرتے رہے وہ عالمی مفکر اور دانشور کال مارک لینین ہوچی من اور ماوزے تنگ کے نظریات کے کڑے حامی تھے وہ ساری دنیا کے عوام کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے عوام کی بھی خوشحالی چاہتے تھے مگر ایسا آج تک نہ ہو سکا؟ مرزا ابراہیم مدرسہ تعلیم سے آگے نہ پڑھ سکے انہوں نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی کیا پھر بھٹہ مزدور بن گئے اور پھر برج ورکشاپ ریلوے جہلم میں بطور معاون بھرتی ہو گئے انہوں نے اپنی جدو جہد کا آغاز خلافت موومنٹ سے کیا،جس کی قیادت مولانا محمد علی جو ہر اور مولانا شوکت علی کر رہے تھے۔ 1946ء بغاوتوں کا سال تھا اس دوران پولیس ملازمین نیول فوج اور انبالہ میں رائل ایئر فورس نے بھی بغاوت کردی اور پھر ریلوے میں بھی کم مئی 1946 ء کو ریل کا پہیہ صبح 8 بجے تا 12 بجے جام ہو گیا اور پھر 27 جون 1946 ء کو رات 12 بجے سے مکمل ہڑتال ہوگئی،مرزا ابراہیم اور ان کے ساتھی گرفتار کر لئے گئے، ملک تقسیم ہونے جارہا تھا حکمرانوں نے یونین رہنماؤں سے مذاکرات کئے اور ڈیڑھ لاکھ مزدور روزگار بے ہونے سے بچ گئے اور ان کی تنخواہیں بھی بڑھائی گئیں پھر مطالبات تو مان لئے گئے مگر اس کی پاداش میں مرزاابراہیم کو تقسیم سے 5 ماہ قبل 1947ء میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ 1948ء میں پاکستان میں پہلی مزدور فیڈ ریشن کی بنیاد رکھی جس کا نام پاکستان ٹریڈ یونین فیڈ ریشن رکھا گیا جس کے بانی صدر بنے جبکہ فیڈریشن میں ان کے ساتھ فیض احمد فیض سی آر اسلم ایرک سپرین سردار شوکت علی سوبھوگیان چندانی بھی شامل تھے جبکہ جنرل سیکرٹری ایم اے مالک بنے ،مرزا ابراہیم نے برصغیر کے کئی ایک بڑے بڑے نامور سیاست دانوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کیں اور کام بھی کیا جس میں موہن داس گاندھی، پنڈت جو ہر لال نہرو، قائد اعظم محمد علی جناح خان ،لیاقت علی خان، خان عبد الفار خان، جی ایم سید عبدالصمد اچکزئی، مولانا محمد علی جوہر ،مولانا شوکت علی ،سوبھاش چندر بوس سمیت کئی رہنما شامل تھے۔ جن کے ساتھ جدو جہد کی اور جیل میں بھی رہے اور ان میں سید سجاد ظبیر، حسن ناصر، وادا میر حیدرز فروز، دین منصور، محمود الحق عثمانی، مولانا عبدالحمید بھاشانی، خان ولی خان، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب،سی آرا اسلم انیس ہاشمی، سو بھو گیان چندانی، امام علی نازش، ڈاکٹر اعزاز نذیز، سردار شوکت علی، میجر محمد اسحاق ،افضل بنگش، غلام نبی کلو، عابد حسین، منٹو، کنیز فاطمہ، محمد حسین عطا، احمد الطاف، حیدر بخش جتوئی کیپٹن ظفر اللہ پوشنی، چو ہدری فتح محمد، طفیل عباس ،زین الدین خان لودھی سمیت کئی ایک رہنما شامل تھے۔ تقسیم کے بعد دانیال لطیفی کے گھر پروزیر اعظم لیاقت علی خان سے ملاقات ہوئی اس موقع پر لیاقت علی خان نے کہا کہ مرزا صاحب اب پاکستان بن گیا ہے۔ جس کی حمایت کمیونسٹ پارٹی نے بھی کی ہے۔ آپ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں آپ کی وزارت محنت کا قلم دان دیا جائے گا آپ وزیر محنت بن جائیں انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرادیااور یوں پہلی مرتبہ ان کا ٹکراؤ حکومت سے ہو گیا۔ پھر انہیں دسمبر 1947 ء میں گرفتار کر لیا گیا اور یوں وہ پہلے پاکستان کے سیاسی قیدی بنے انہیں شاہی قلعہ لاہور میں قید رکھا گیا رہائی کے بعد سیاسی سرگرمیاں تیز رکھی گئی۔ انہیں پھر 1949ء میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا پھر 1951ء میں گرفتار ہوئے جہاں سے انہوں نے پنجاب اسمبلی کا الیکشن جیل میں رہتے ہوئے لڑاوہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے امیدوار تھے جن کے مقابلے میں مسلم لیگ کے رہنما احمد سعید کرمانی تھے جن کے بیٹے اب بھی نواز شریف کے مشیر ہیں اس الیکشن میں مرزا ابراہیم کے حامیوں نے انہیں ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دئیے جو الیکشن کے موقع پر ان کے ڈبوں سے برآمد ہوئے پہلی مرتبہ الیکشن میں دھاندلی اور جھگڑالو الیکشن ہوا اور ان کے ڈھائی ہزار ووٹ کو رد کر دیا اور ہارنے والے اُمیدو اراحمد سعید کرمانی کو کامیاب قرار دیا گیا اس طرح 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی انجمن ترقی پسند مصفین اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈ ریشن پر پابندی لگا کر ایک مرتبہ پھر مرزا ابراہیم گرفتار ہوئے انہوں نے 6 مرتبہ شاہی قلعہ اور 17مرتبہ جیل کاٹی ہر مرتبہ کی کلاس جیل میں رہے اس دوران ان کی ملاقات حسن ناصر سے بھی ہوتی رہی جنہیں ایوب خان کے دور میں تشدد کے ذریعہ شہید کر دیا گیا انہوں نے ایوب خان کے دور میں اکتوبر 1967ء میں ملک گیر ہڑتال کرائی گرفتاریاں ہوئی خود بھی گرفتار ہوا۔مرزا ابراہیم کی مشکلوںاور سخت زندگی کو سرخ سلام۔ اب سے چند ماہ پہلے محترمہ کنیزفاطمہ بھی رخصت ہو گئیں اور عابد حسن منٹو کی اہلیہ تسنیم بھابھی بھی ہمیں چھوڑ گئیں۔