• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

3 ہزار 750 کھرب روپے کی آڈیٹر جنرل رپورٹ کا مستقبل غیر یقینی

انصار عباسی

اسلام آباد:…پاکستان کے سابق آڈیٹر جنرل جاوید جہانگیر نے حال ہی میں پیش کی جانے والی آڈٹ رپورٹ پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے جس میں وفاقی مالیات میں375ٹریلین روپے (3ہزار 750کھرب روپے) کی بے قاعدگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے، یہ رقم ملک کے کل بجٹ سے27گنا زیادہ ہے۔ان اعداد و شمار کے بارے میں حالیہ دنوں میں اس اخبار نے روشنی ڈالی تھی جس سے بڑے پیمانے پر بے یقینی پھیل گئی تھی۔دی نیوز سے بات کرتے ہوئے، 2021ء میں اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے والے جاوید جہانگیرنے کہا کہ یہ بھاری رقم ’’غیر معمولی لگتی ہے‘‘ اور اس پر محتاط انداز میں دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ان کے دور میں آڈٹ رپورٹس صرف قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے کے بعد ہی عوام کے لئے جاری کی جاتی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا’’مجھے نہیں معلوم کہ آڈٹ سال 2024-25 کی یہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش ہونے سے پہلے ہی (آڈیٹر جنرل کی ویب سائٹ پر) کیوں عام کی گئی ہے۔‘‘ان کے یہ تبصرے ان سرکاری ذرائع کے دعووں کے بعد سامنے آئے ہیں کہ پارلیمانی امور کی وزارت خود تذبذب کا شکار ہے کہ آیا اس دستاویز کو اس کی موجودہ شکل میں قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے یا تنازع کی روشنی میں اس کی دوبارہ جانچ اور تصدیق کی جائے۔یہ بحث’’دی نیوز‘ ‘میں اتوار کو شائع ہونے والی خبر کے بعد شروع ہوئی جس میں آڈیٹر جنرل کے دفتر کی جانب سے رپورٹ کی گئی بے قاعدگیوں کے غیر معمولی پیمانے کو اجاگر کیا گیا تھا۔ آڈٹ دستاویز میں3ہزار 750 کھرب ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں خریداری میں 284.17 ٹریلین روپے، تاخیر شدہ یا ناقص سول ورکس میں 85.6 کھرب روپے، زیر التوا واجبات میں 2.5 ٹریلین روپے اور گردشی قرضوں میں 1.2 کھرب روپے، کے علاوہ دیگر مالی بدانتظامی شامل ہیں۔’’دی نیوز‘‘ کی خبر نے حکومتی حلقوں اور مالیاتی برادری میں ہلچل مچا دی ہے، کیونکہ پاکستان کا کل جی ڈی پی تقریباً 110 کھرب روپے ہے اور 2023-24 کا وفاقی بجٹ 14.5 کھرب روپے تھا۔ اس کے برعکس، آڈٹ میں بیان کردہ بے قاعدگیاں قومی بجٹ سے 27 گنا زیادہ ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ یہ رپورٹ یا تو ایک بہت بڑی اکاؤنٹنگ یا کمپائلیشن(مرتب کرنے) کی غلطی کو ظاہر کرتی ہے، یا ملک کے مالیاتی نگرانی کے طریقہ کار میں ایک گہرے ساکھ کے بحران کی نشاندہی کرتی ہے۔جب اس سے قبل رابطہ کیا گیا تو آڈیٹر جنرل کے دفتر نے کسی بھی غلطی کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس کے بجائے، انہوں نے اصرار کیا کہ مالیاتی قواعد کی خلاف ورزی، بے قاعدگیاں اور بدعنوانی، جو کہ مختص کرنے سے لے کر خرچ کرنے تک ہوتی ہے، کل بجٹ کی رقم سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ تاہم دفتر نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ اعداد و شمار 375,000 ارب روپے تک کیسے پہنچے۔اب جبکہ سابق آڈیٹر جنرل جہانگیر نے عوامی طور پر رپورٹ کی درستگی پر سوال اٹھا دیا ہے اور حکومتی حلقے بے چینی کا اظہار کر رہے ہیں، آڈٹ سال 2024-25 کی رپورٹ (مالی سال 2023-24) کا مستقبل اس وقت تک غیریقینی رہے گا جب تک کہ اس کا جائزہ نہ لیا جائے۔

اہم خبریں سے مزید