اسلام آباد (مہتاب حیدر) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے منگل کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو آگاہ کیا کہ موجودہ مالی سال کے دوران ملک کی جی ڈی پی شرح نمو سرکاری ہدف 4.2 فیصد سے کم رہنے کا امکان ہے۔ ڈپٹی گورنر نے بتایا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر درست سطح پر ہے، مصنوعی اضافہ ذخائر پر دباؤ ڈالے گا، گزشتہ سال اوپن مارکیٹ سے 7.8 ارب ڈالر خریدے، افراط زر اپریل تا جون ہدف سے بڑھنے کا امکان ہے۔ ترسیلات زر کا 40 ارب ڈالر تخمینہ، 200 ڈالر پر 20 ریال ترغیبی اسکیم بحال کردی گئی ہے۔ فاٹا 10 فیصد جی ایس ٹی پر دو لابیاں، مقامی باشندے مخالف، نوید قمر نے اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر وزارت صنعت پر شدید تنقید کی۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کا اجلاس چیئرمین سید نوید قمر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ مالی سال 26ء میں جی ڈی پی کی شرح نمو 4.2 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 3.2 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر عنایت حسین نے کمیٹی کو بتایا کہ مرکزی بینک نے زرمبادلہ کے ذخائر کا ہدف دسمبر تک 15.5 ارب ڈالر اور جون تک 17.5 ارب ڈالر رکھا ہے۔ ان کے مطابق روپے کی مصنوعی قدر بڑھانے سے درآمدی بل میں اضافہ ہوگا اور ذخائر پر مزید دباؤ پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر “صحیح سطح” پر ہے، نہ زیادہ اور نہ کم۔ پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی اسامہ میلا نے نشاندہی کی کہ صرف جولائی میں ہی حکومت نے مارکیٹ سے 720 ملین ڈالر خریدے۔ ڈاکٹر عنایت نے تصدیق کی کہ پچھلے مالی سال میں اسٹیٹ بینک نے اوپن مارکیٹ سے 7.8 ارب ڈالر خریدے تھے اور وضاحت کی کہ بینک صرف اس وقت مداخلت کرتا ہے جب ڈالر کی رسد ضرورت سے زیادہ ہو۔