ریفارم یو کے کے سربراہ نائیجل فراج کے پناہ گزینوں کو جبری واپس بھیجنے کے منصوبے پر ماہرینِ قانون اور سیاسی مخالفین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
نائیجل فراج اپنے اس منصوبے کے تحت لاکھوں پناہ گزینوں کو افغانستان کی طالبان حکومت سمیت ایسے ممالک واپس بھیجنا چاہتے ہیں جہاں انسانی حقوق کی صورتحال نہایت خراب ہے۔
ماہرینِ قانون اور سیاسی مخالفین نے اس تجویز کو ’غیر حقیقی‘ اور برطانیہ کے بعد از جنگ انسانی حقوق کے وعدوں کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
فراج نے آکسفورڈ میں ایک جارحانہ پریس کانفرنس کے دوران اپنی جماعت کا منصوبہ ’آپریشن ریسٹورنگ جسٹس‘ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ چھوٹی کشتیوں کے ذریعے آنے والے کسی بھی فرد کو ملک میں رہنے نہیں دیا جائے گا، چاہے وہ عورتیں ہوں یا بچے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ اس پالیسی سے چند دنوں میں غیر قانونی کراسنگ رک جائیں گی اور برطانیہ ممکنہ طور پر سیکڑوں ارب پاؤنڈز بچا سکے گا۔ تاہم وہ یہ واضح کرنے میں ناکام رہے کہ اس منصوبے کو عملی طور پر کیسے نافذ کیا جائے گا۔
اسی طرح نائیجل فراج نے یہ بھی وضاحت نہیں کی کہ ایران، افغانستان، اریٹیریا اور سوڈان جیسے ممالک کے ساتھ برطانیہ کس طرح جبری واپسی کے معاہدے کرے گا؟ جبکہ ان میں سے کئی ریاستوں کے ساتھ برطانیہ کے باضابطہ معاہدے موجود ہی نہیں اور برطانوی عدالتیں انہیں غیر محفوظ قرار دے چکی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ اس بڑے منصوبے کی مالی اعانت کس طرح ہوگی، صرف یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ اخراجات ماہرین کی آزادانہ تخمینوں کے مقابلے میں بہت کم ہوں گے۔