لندن(نیوز ڈیسک) برطانوی پارلیمنٹ میں تبدیلی کے بعد پاکستانی نژاد رکن پارلیمنٹ شبانہ محمود کو برطانیہ کی وزیر داخلہ بنا دیا گیا ہے وہ برطانیہ کی پہلی مسلم خاتون وزیر داخلہ ہیں ۔ ان کی تقرری کے ساتھ ہی ان کے سابقہ سیاسی مؤقف، خاص طور پر فلسطین، کشمیر، اور امیگریشن جیسے حساس معاملات پر توجہ مرکوز ہو گئی ہے۔وزیر داخلہ شبانہ محمود نے وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا:"دنیا کے سامنے اپنا وقار بحال کرنا ہی منظم جرائم کے خلاف کارروائی اور اپنی سرحدوں کے تحفظ کا راستہ ہے۔ ہم فائیو آئیز شراکت داروں کے ساتھ مل کر اسمگلروں پر کاری ضرب لگانے کے لیے نئے اقدامات پر اتفاق کریں گے۔ کشمیر کو بھارت کا زیر قبضہ علاقہ قرار دینے پر انڈین میڈیا نے ان کو بھارت مخالف بھی قرار دیا،انسانی حقوق کی تنظیموں نے شبانہ محمود کے سامنے موجود چیلنجز کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں فوری طور پر پناہ گزینوں کے ہوٹل ختم کرنے، کیسز کے فیصلے تیز کرنے اور محفوظ و قانونی راستوں سے آنے والے پناہ گزینوں کے لیے سہولتیں بڑھانے پر توجہ دینا ہوگی۔وہ یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق (ECHR) میں اصلاحات کی بھی حامی ہیں اور چاہتی ہیں کہ غیر ملکی مجرموں کو سزا پاتے ہی فوری طور پر ملک بدر کیا جائے۔سیاسی مبصرین کے مطابق برطانیہ کی نئی ہوم سیکرٹری شبانہ محمود کو غزہ پر اپنے ماضی کے ووٹوں اور کشیدگی میں اضافے کے ساتھ فلسطین کی حامی سرگرمیوں سے تعلق کے حوالے سے جانچ پڑتال کا بھی سامنا ہے۔فلسطینی و اسرائیلی سلامتی پر مؤقفشبانہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ اسرائیلی اور فلسطینی عوام کی سلامتی کی یکساں حمایت کرتی ہیں۔"ایک ریاستی حل اسرائیلی عوام کو غیر محفوظ بناتا ہے... اور یہ انصاف نہیں کہ اسرائیلیوں کو خود ارادیت ملے لیکن فلسطینیوں کو نہیں،" انہوں نے کہا۔متنازعہ مذہبی و سماجی مؤقفشبانہ محمود نے اسسٹڈ ڈائنگ کے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا:"ایک مسلمان ہونے کے ناطے میری زندگی کی حرمت پر غیر متزلزل یقین ہے۔ موت کو بطور خدمت ریاست کی جانب سے فراہم کرنا درست نہیں۔ بھارتی میڈیا کی تنقید اور کشمیری پس منظربھارتی میڈیا نے شبانہ پر بھارت مخالف ہونے کا الزام بھی لگایا ہے، کیونکہ وہ کشمیر کو "بھارت کے زیر قبضہ" علاقہ قرار دیتی ہیں۔ شبانہ محمود برطانیہ کی پہلی مسلم وزیر داخلہ ہیں ۔ انہیں امیگریشن کے بڑھتے ہوئے مسائل کے ساتھ ساتھ اسرائیل-حماس جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی داخلی کشیدگی سے بھی نمٹنا ہوگا۔ہیں۔فلسطین سے متعلق مؤقف شبانہ محمود کے فلسطین سے متعلق مؤقف کو شدید جانچ پڑتال کا سامنا ہے۔ وہ "فری فلسطین" کے بینرز کے ساتھ فلسطین یکجہتی ریلیوں میں شریک رہی ہیں اور انہوں نے پیلسٹائن ایکشن کو کالعدم قرار دینے کے بل پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ یاد رہے کہ یہ ذمہ داری اب ان کے سپرد ہوئی ہے، جو پہلے وزیر داخلہ یویٹ کوپر کے پاس تھی۔2014 میں انہوں نے برمنگھم میں واقع سینزبری سپر مارکیٹ کے باہر احتجاج کیا تھا تاکہ اسرائیلی بستیوں سے آنے والی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ 2024 میں انہوں نے BDS (اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی تحریک) کو غیر قانونی قرار دینے کے بل کی مخالفت کی۔تاہم، وہ متعدد اہم ووٹس میں غیر حاضر رہیں جن میں نومبر 2023 میں غزہ میں جنگ بندی کی اپیل، مارچ 2024 میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت معطل کرنے کی قرارداد، اور اسرائیلی حکام کے خلاف ICC کے وارنٹس کی حمایت شامل ہیں۔حماس کی مذمت اور توازن کا مؤقفشبانہ نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں حماس کے حملوں کی کھل کر مذمت کی۔ 12 اکتوبر کو اپنے حلقے کے عوام کے نام ایک خط میں انہوں نے لکھا:"میں حماس کے ان گھناؤنے اقدامات کی پرزور مذمت کرتی ہوں، جنہوں نے بے گناہ اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنایا۔"انہوں نے مزید کہا:"یہ مظالم دہشت گردوں نے کیے ہیں جو امن نہیں چاہتے اور جنہوں نے فلسطینی آزادی کی جائز تحریک کو نقصان پہنچایا ہے، جس کی میں ہمیشہ حمایت کرتی آئی ہوں۔