برطانوی حکمران جماعت لیبر پارٹی کے ڈپٹی لیڈر شپ کے انتخاب میں مقابلے کی دوڑ میں وزیرِ تعلیم برجٹ فلپ سن اور مانچسٹر سے رکنِ پارلیمنٹ لوسی پاؤل سب سے آگے ہیں جبکہ دیگر امیدوار مطلوبہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
فلپ سن نے بدھ کی شام تک 116 ارکانِ پارلیمنٹ کی حمایت حاصل کر کے باآسانی نامزدگی کی حد عبور کر لی جبکہ پاؤل 77 حمایتوں کے ساتھ اب بھی مطلوبہ حد سے کچھ پیچھے ہیں۔
دیگر امیدواروں میں بیل ریبیرو ایڈی، پاؤلا بارکر اور ایملی تھارن بیری کو 15 سے بھی کم حمایت مل سکی ہے، کمیونٹیز کی وزیر ایلیسن میکگورن نے انتخابات سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے فلپ سن کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
پارٹی کے اندر اس انتخابی عمل کو قیادت کے درمیان تناؤ کا عکاس قرار دیا جا رہا ہے، بعض ارکان نے اسے کیئر اسٹارمر اور گریٹر مانچسٹر کے میئر اینڈی برنہم کے درمیان ’پراکسی جنگ‘ سے تعبیر کیا ہے کیونکہ پاؤل، برنہم کی قریبی اتحادی سمجھی جاتی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پاؤل کو ’ریڈ وال‘ نشستوں سے منتخب کئی ارکان اور ’ٹریبیون‘ گروپ کی حمایت حاصل ہو رہی ہے، جو تبدیلی کے خواہاں سمجھے جاتے ہیں۔
فلپ سن کو ایوانِ زیریں میں واضح برتری حاصل ہے، اپنی انتخابی مہم میں شمال مشرقی انگلینڈ کے حلقے کی نمائندگی اور ریفارم یوکے کے خلاف جدوجہد کے تجربے کو اجاگر کر رہی ہیں۔
دوسری جانب، حال ہی میں کابینہ سے برطرف کی گئی پاؤل کو ایک منظم اور فعال سیاست دان سمجھا جاتا ہے، وہ ان ارکان کی حمایت حاصل کر رہی ہیں جو اسٹارمر کی قیادت سے ناخوش ہیں۔
تھارن بیری نے اپنی مہم کا آغاز اسٹارمر کی معاشی پالیسیوں، فلاحی اقدامات اور غزہ تنازع سے متعلق رویے پر تنقید کے ساتھ کیا، مگر انہیں خاطر خواہ حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ انتخابی عمل کے دوران کئی مشکلات بھی سامنے آئیں، جس میں ہسٹنگز کے پروگرام ٹرانسپورٹ ہڑتالوں اور انتظامی مسائل کے باعث منسوخ ہونا شامل ہے۔
پارٹی کے بائیں بازو کی نمائندہ ریبیرو ایڈی نے انتخابی قوانین کو ’غیر جمہوری‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے کارکن بددل ہو رہے ہیں اور پارٹی میں حقیقی بحث کا راستہ روکا جا رہا ہے۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق اب یہ دوڑ براہِ راست فلپ سن اور پاؤل کے درمیان ہے، جس میں فلپ سن پارلیمانی سطح پر واضح برتری رکھتی ہیں جبکہ پاؤل تبدیلی کے خواہشمند ارکان کی توجہ حاصل کر رہی ہیں۔