• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلیا، آئندہ ہفتے کے اختتام تک 150 ممالک تسلیم کرلینگے

لندن، کراچی (مرتضیٰ علی شاہ، جنگ نیوز) برطانیہ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا نے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طورپر تسلیم کرلیا ‘ آئندہ ہفتے کے اختتام تک 150ممالک تسلیم کرلینگے۔ تینوں مغربی ممالک نے غزہ جنگ پر مایوسی کے بعد دو ریاستی حل کی حمایت میں قدم اٹھایا۔برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کا کہنا ہے کہ غزہ کا انسانی بحران ناقابلِ برداشت، امن کی امید کو زندہ کرنا ضروری ہے، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے اعلان کو مضحکہ خیز اور دہشت گردی کا انعام قرار دیا‘نیتن یاہو نے کھلی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی ‘میری امریکا سے واپسی پر اسرائیل کی جانب سے ردعمل دیا جائے گا۔ اسرائیلی وزیر اتمار بن گویر کے مطابق یہ قاتلوں کو انعام دینے کے مترادف ہے جبکہ فلسطینی صدر محمود عباس نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ امن اور بقائے باہمی کی راہ ہموار کرے گا۔ کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی کا کہنا تھاکہ فلسطین کو تسلیم کرنے سے پرامن بقائے باہمی کو تقویت ملے گی ‘ آسٹریلوی وزیراعظم کے مطابق فلسطینی اصلاحات پر پیش رفت کے ساتھ سفارتی تعلقات اور سفارتخانے قائم کریں گے۔ فرانس بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کا اقوامِ متحدہ میں اعلان کریگا۔ اسرائیل اور امریکا ناراض، یہودی تنظیموں اور صہیونی حکومت کی سخت تنقید، برطانوی سیاست میں تقسیم واضح ہے۔ ادھر غزہ پر صہیونی حملے اور بمباری جاری، مزید 71 فلسطینی شہید کردئیے گئے، دنیا بھر میں فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کیلئے بڑے مظاہرے کیے گئے۔ برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتا ہے۔ یہ فیصلہ تاریخی ہونے کے باوجود علامتی نوعیت کا قرار دیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اس قدم کا مقصد فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امن کی امید کو دوبارہ زندہ کرنا ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کا آغاز ہونے والا ہے۔ برطانیہ سے قبل کینیڈا اور آسٹریلیا نے بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام سات دہائیاں بعد سامنے آیا ہے، جب برطانوی مینڈیٹ کے اختتام پر اسرائیل کی ریاست وجود میں آئی تھی۔ برطانوی حکومت نے تسلیم کیا کہ فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے نہ تو غزہ کے انسانی بحران میں فوری کمی ہوگی اور نہ ہی حماس کے قبضے میں موجود یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہوگی، تاہم یہ قدم مشرق وسطیٰ میں پائیدار دو ریاستی حل کے لیے ضروری ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے اس فیصلے کو ’’مضحکہ خیز‘‘ اور ’’دہشت گردی کا انعام‘‘ قرار دیا۔ جواباً برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ حماس ایک ’’سفاک دہشت گرد تنظیم‘‘ ہے جس پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا: ’’دو ریاستی حل کی ہماری اپیل دراصل ان کے نفرت انگیز ایجنڈے کے برعکس ہے۔‘‘ کیئر اسٹارمر نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا:’’آج میں اس عظیم ملک کا وزیراعظم ہونے کے ناطے یہ اعلان کرتا ہوں کہ برطانیہ فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتا ہے۔ ہم نے اسرائیل کو 75 سال قبل ایک یہودی وطن کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ آج ہم ان 150 سے زائد ممالک میں شامل ہو گئے ہیں جو فلسطین کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔‘‘آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانی نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات پر پیش رفت کے ساتھ مزید اقدامات، جن میں سفارتی تعلقات اور سفارتخانوں کا قیام شامل ہے، پر غور کیا جائے گا۔ کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے کہا کہ فلسطین کو تسلیم کرنا ان لوگوں کو تقویت دیتا ہے جو پرامن بقائے باہمی اور حماس کے خاتمے کے خواہاں ہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ دراصل ’’جہادی حماس کو انعام دینے‘‘ کے مترادف ہے۔ نیتن یاہو کی ترجمان نے کہا کہ ’’فلسطینی اسرائیل کے ساتھ نہیں بلکہ اسرائیل کی جگہ ریاست چاہتے ہیں۔‘‘ یہ مسئلہ آئندہ دنوں میں اقوامِ متحدہ کے اجلاس پر حاوی رہنے کا امکان ہے، جہاں فرانس بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنے والا ہے۔ برطانیہ کے نائب وزیراعظم ڈیوڈ لامی نے اعتراف کیا کہ اس فیصلے سے فوری طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، تاہم برطانیہ فلسطین کو 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر تسلیم کرے گا۔

اہم خبریں سے مزید