اسلام آباد(قاسم عباسی) پس پردہ رہ کرکام کرنے والی (Surrogate) جوئے کی کمپنیوں کے خلاف ایک اہم مؤقف اپناتے ہوئے پاکستان سپر لیگ (PSL) کی دو فرنچائزز — اسلام آباد یونائیٹڈ اور پشاور زلمی — نے جوئے سے منسلک اداروں کی ملٹی ملین ڈالر کی اسپانسرشپ ڈیلز قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ فرنچائزز نے تصدیق کی ہے کہ جوئے کی ان کمپنیوں کی جانب سے دیے گئے مالیاتی پیکجز روایتی برانڈز کی پیشکشوں سے کہیں زیادہ تھے۔ اس کے باوجود دونوں ٹیموں نے اخلاقی اور سماجی خدشات کے پیش نظر قلیل مدتی مالی فوائد کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں فرنچائزز نے تصدیق کی کہ انہوں نے یہ معاملہ براہِ راست پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ساتھ پی ایس ایل کی اندرونی میٹنگز میں اٹھایا تھا۔ ایک اعلیٰ فرنچائز عہدیدار نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دونوں ٹیموں نے پی سی بی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مثال قائم کرے اور اجتماعی طور پر جوئے کی سے منسلک اسپانسرشپس کو مسترد کرے — ان کا مؤقف تھا کہ اگر لیگ کی برانڈنگ اور منصوبہ بندی مضبوط ہو تو اس طرح کی آمدن کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔اس عہدیدار نے مزید کہا کہ "اگر پی سی بی اجتماعی مؤقف اپناتا تو دیگر فرنچائزز بھی اس پر عمل کرنے کو تیار تھیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔"بار بار سوالات کے باوجود پی سی بی نے اس معاملے پر ماضی میں اپنی پوزیشن کے بارے میں کوئی جواب نہیں دیا۔تاہم، جب اس معاملے پر پی سی بی سے ماضی میں باضابطہ طور پر پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھاکہ "ہم بالکل واضح کر دینا چاہتے ہیں: پاکستان کرکٹ بورڈ اپنی تمام تجارتی ڈیلز میں سخت قانونی تعمیل کو یقینی بناتا ہے۔ ہر رائٹس ہولڈر معاہدے کے تحت قانون کے دائرے میں کام کرنے کا پابند ہے۔"پشاور زلمی کے چیئرمین جاوید آفریدی نے کہا: "زلمی کے لیے کبھی بھی ʼآسان پیسہʼ ترجیح نہیں رہا۔ اس کے بجائے ہم نے ہمیشہ معتبر، اثر انگیز اور سماجی طور پر ذمہ دار پارٹنر برانڈز کا انتخاب کیا ہے جو ہماری فرنچائز میں طویل المدتی قدر اور اعتبار کا اضافہ کریں۔"زلمی کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر، احد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فرنچائز نے اپنے آغاز سے ہی سخت "نو جوئے کی" پالیسی پر عمل کیا ہے۔اسلام آباد یونائیٹڈ نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر، ریحان الحق نے کہاکہ "اسلام آباد یونائیٹڈ نے کبھی بھی جوئے کی یا سراغ رساں کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری نہیں کی، حالانکہ ہمیں برسوں میں کئی بار پیشکشیں ملیں۔