کراچی (ٹی وی رپورٹ) سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی نے کہا کہ امریکہ بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے اور اب امریکہ ان پارٹنرز کی تلاش میں ہے جو مختلف خطوں میں ذمہ داریاں سنبھال سکیں تاکہ امریکہ کو نہ اپنی فوج بھیجنی پڑے نہ وسائل لگانے پڑیں۔ ترکی، مصر اور پاکستان کے ساتھ امریکہ کے ساتھ تعلقات ہیں ایران جس کو امریکہ قابو کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے پاکستان کو پذیرائی حاصل ہو رہی ہے لیکن میں تنبیہ کروں گا کہ ضروری نہیں ہے اس سے پاکستان کو فائدہ بھی ہو کیوں کہ ٹرمپ کچھ لو اور دو پر یقین رکھنے کی بجائے کچھ لو اور کچھ لو پر یقین رکھتے ہیں یعنی صرف اپنا مفاد دیکھتے ہیں۔جبکہ انڈیا کی بات کی جائے تو انڈیا سافٹ پاورتو چاہتا ہے لیکن ہارڈ پاور کو ڈپلائی نہیں کرنا چاہتا اور وہ تعلقات رکھتے ہیں لیکن نکاح نامہ پر دستخط کرنے کو تیار نہیں ہوتے ٹرمپ کی ناراضی کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ” جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کر رہے تھے۔حسین حقانی نے مزید کہا کہ ٹرمپ چاہتے ہیں امریکہ کی جو تجارتی حیثیت ہے وہ پہلے کے مقابلے میں بڑی ہو اور امریکہ درآمد کرنے والا نہیں برآمد والا ملک بنے۔ ماہرین معاشیات سمجھتے ہیں ایسا ممکن نہیں لیکن ٹرمپ اس معاملے میں ملکوں سے تعاون چاہتےہیں اور انڈیا نے اس میں تعاون نہیں کیا۔ پاک بھارت جنگ میں واضح ہوگیا کہ بھارت کی عسکری طاقت وہ نہیں ہے جس سے معاشی قوت توازن رکھتی ہو، اس کے بعد ٹرمپ کی مہربانی پاکستان پر اور بڑھ گئی ہے۔اگلے انتخابات کے بعد حکومت کی تبدیلی پر ممکن ہو کہہ دیا جائے کہ یہ سب ٹرمپ کی غلطیاں تھیں بھارت امریکہ دوبارہ ماضی کی حکمت عملی پر واپس آگئے ہیں البتہ ٹرمپ کی طبیعت پل میں تولہ پل میں ماشہ والی ہے لیکن یہ طے ہے کہ بھارت کی اقتصادی پوزیشن حقیقی ہے اس وجہ سے بھارت کو مکمل نظر انداز نہیں کیا جاسکتا نہ ہی کوئی کرے گا۔