• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی اخبار کا آرٹیکل، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی تجویز، پاکستان کی ساحلی پٹی پر چھوٹی بڑی تجارتی بندرگاہوں کا بہت پوٹینشل، سیکورٹی ذرائع

اسلام آباد (طاہر خلیل ) سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات باہمی مفاد پر منحصر ہوتے ہیں، پاکستان ہر فیصلہ اپنے مفاد کو دیکھ کر کرتا رہیگا، مختلف ممالک کی شراکت سے اپنے ذخائر دریافت کرینگے، چین، امریکا، سعودیہ اور جو ملک بھی اس عمل میں شامل ہونے میں دلچسپی لے گا زمینی حقائق کے مطابق پارٹنر شپ کرینگے،پاکستان کی ساحلی پٹی پر چھوٹی بڑی تجارتی بندرگاہوں کا بہت پوٹینشل ہے، سیکورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان امریکا کو بلوچستان میں کوئی بحری اڈہ (Naval Base) نہیں دے رہا، ایک اعلیٰ سطح کے ذریعے نے کہا ہمارے لیے یہ اہم نہیں کہ امریکہ کا مفاد کیا ہے، ہمارے لیے صرف وہی چیز اہمیت رکھتی ہے جس سے پاکستان کو فائدہ ہو۔ تفصیلات کے مطابق سیکورٹی ذرائع نے قومی دفاع، سیکورٹی امور، خطے کی موجودہ صورتحال اور درپیش چیلنجز پر منتخب صحافیوں کے گروپ سے تفصیلی بات کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی تعلقات اور کسی ملک سے دوسرے ملک کے تعلقات ملک کے باہمی مفاد پر منحصر ہوتے ہیں،پاکستان اپنی ریاست اور عوام کے مفاد کو دیکھتے ہوئے دیگر ممالک اور عالمی طاقتوں سے اپنے تعلقات نبھاتا ہے۔ پاکستان ہر فیصلہ اپنے مفاد کو دیکھ کر کررہا ہے اور کرتا رہےگا،معدنیات اور کان کنی کے شعبے میں ترقی کیلئے تزویراتی صبر اور بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے-پاکستان مختلف ممالک، کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کی شراکت سے اپنے ذخائر کی دریافت کریگا-چین،امریکا، سعودیہ، اور جو ملک بھی اس عمل میں شامل ہونے میں دلچسپی لے گا پاکستان اپنے مفاد اور زمینی حقائق کے مطابق پارٹنر شپ کرے گا۔فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والا آرٹیکل دراصل پبلک پرائيوٹ پارٹنر شپ کی ایک تجویز (Proposal) پر مبنی ہے۔ پاکستان کی ساحلی پٹی پر چھوٹی بڑی تجارتی بندرگاہوں کا بہت پوٹینشل ہے۔ دنیا کے ممالک اس طرح کی شراکت داری کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھا جائے گا۔غزہ امن معاہدے پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے واضح اور واشگاف الفاظ میں کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے گزشتہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی،اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جارہا۔ پاکستان کی ترجیح اس وقت صرف یہ ہے کہ وہاں نسلی کشی اور قتل عام بند ہو،مظلوموں کیلئے ریلیف کا سامان پہنچے۔کچھ سیاسی عناصر، دہشت گردوں اور مجرمانہ عناصر کا باہمی تعلق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سیکورٹی فورسز نے بہترین حکمت عملی کے ساتھ اسمگلنگ اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کو بہت حد تک توڑ دیا ہے، اسکا مکمل خاتمہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح اور نیک نیتی سے عمل سے ہوگا۔ جسکے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز اور ریاست کی ہر اکائی کو اپنا کام کرنا ہوگا۔ دریں اثناء پاکستان کے ایک سینئر فوجی اور انٹیلی جنس عہدیدار نے واضح کیا ہے کہ آرمی چیف کے کسی بھی مشیر کی حیثیت سے کوئی فرد سرکاری طور پر کام نہیں کر رہا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ نجی یا کاروباری اداروں کی جانب سے کی جانے والی گفتگو یا تجاویز کو سرکاری پالیسی یا ریاستی منصوبہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ذرائع کے مطابق، جنوبی ساحلی بندرگاہ (پسنی )کے تصور پر بات چیت نجی کمپنی "موٹا اینگل گروپ" کے ساتھ غیر رسمی ملاقاتوں میں ہوئی، تاہم یہ تجویز نہ تو کسی سرکاری چینل سے منظور شدہ ہے اور نہ ہی کسی اسٹریٹجک یا حکومتی سطح پر زیر غور آئی ہے۔عہدیدار نے کہا کہ یہ ایک تجارتی خیال ہے جو مناسب غور کے منتظر ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ متعلقہ مضمون میں اس منصوبے کو آرمی چیف سے منسلک کرنا غلط تاثر پیدا کرتا ہے کیونکہ یہ سرکاری پالیسی نہیں ہے۔علاوہ ازیں برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان نے امریکا کو پسنی میں نئی بندرگاہ کی تعمیر و آپریشن کی پیشکش کر دی۔ منصوبے میں امریکی سرمایہ کاروں کو اہم معدنی وسائل تک رسائی دی جائے گی، بندرگاہ کا امریکی فوجی اڈے کے طور پر استعمال شامل نہیں ، مقصد ترقیاتی فنڈ کو راغب کرنا ہے۔یہ پیشکش کچھ امریکی حکام کیساتھ زیرِ بحث آئی ۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے جمعہ کو اپنی رپورٹ میں کہا، جس نے اس منصوبے کا حوالہ دیا جو اخبار نےدیکھا ہے۔اس منصوبے کے مطابق امریکی سرمایہ کار پاکستان کے اہم معدنی وسائل تک رسائی کے لیے پسنی میں ایک ٹرمینل تعمیر اور چلائیں گے ۔ پسنی گوادر ضلع کا ایک بندرگاہی شہر ہے جو بلوچستان صوبے میں واقع ہے اور افغانستان و ایران کے ساتھ سرحد لگاتا ہے۔فنانشل ٹائمز کے مطابق یہ پیشکش کچھ امریکی حکام کے ساتھ زیرِ بحث آئی ۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ منصوبے میں اس بندرگاہ کو امریکی فوجی اڈے کے طور پر استعمال کرنے کو شامل نہیں کیا گیا، بلکہ اس کا مقصد ترقیاتی فنڈنگ کو راغب کرنا ہے تاکہ بندرگاہ کو پاکستان کے معدنی وسائل سے مالامال مغربی صوبوں کے ساتھ جوڑنے کے لیے ریل کا نیٹ ورک تعمیر کیا جا سکے۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی اس رپورٹ کی فوری طور پر آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکی۔ امریکی محکمہ خارجہ وائٹ ہاؤس اور پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے فوری طور پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

اہم خبریں سے مزید