حالیہ حیران کن تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کھانے کی پیکنگ میں استعمال ہونے والی مائیکرو پلاسٹک آنتوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے، جس سے آنتوں کے کینسر اور ڈپریشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
آسٹریا کے محققین نے صحت مند رضاکاروں کے فضلے کے ٹشوز کا جائزہ لیا جس سے پتہ چلا کہ یہ ننھے ذرات آنتوں میں موجود مائیکروبیل سرگرمی کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ تبدیلیاں وہی نمونے ظاہر کر رہی تھیں جو پہلے ڈپریشن اور آنتوں کے کینسر سے وابستہ پائے گئے تھے۔
ماہرین نے اس تحقیق کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پہلی انسانی تحقیق ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک انسانی آنتوں کے مائیکروبائیوم کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
تاہم ماہرین نے خبردار کیا کہ یہ سمجھنے کے لیے مزید تحقیق ضروری ہے کہ آخر مائیکرو پلاسٹک اس طرح نقصان کیسے پہنچاتے ہیں۔ مائیکرو پلاسٹک ایسے پلاسٹک کے ذرات ہوتے ہیں جن کا سائز صرف دو مائیکرو میٹر (یعنی ملی میٹر کا دو ہزارواں حصہ) تک ہوتا ہے۔
یہ ذرات کھانے، پانی کے ذرائع اور یہاں تک کہ ہوا میں بھی شامل ہو جاتے ہیں جب پلاسٹک کی مصنوعات قدرتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں۔ حالیہ مطالعات میں مائیکرو پلاسٹک انسانی پھیپھڑوں کے ٹشوز، ماں اور بچے کے نال (پلیسینٹا) کے ٹشوز، انسانی دودھ اور خون میں بھی پائے گئے ہیں۔
گریز یونیورسٹی کے مائیکرو پلاسٹک محقق اور اس تحقیق کے مرکزی مصنف کرسچیئن پاشر۔ڈوئچ کا کہنا ہے کہ یہ نتائج بہت اہم ہیں کیونکہ روزمرہ زندگی میں مائیکرو پلاسٹک کے اثرات بہت عام ہیں۔
مچھلی، نمک، بوتل والے پانی اور یہاں تک کہ نل کے پانی میں بھی مائیکرو پلاسٹک پائے گئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ زیادہ تر لوگ روزانہ انہیں کھانے، سانس لینے اور جلد کے ذریعے جذب کرتے ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ مائیکرو پلاسٹک واقعی ہمارے مائیکروبائیوم پر اثر ڈالتے ہیں۔
اگرچہ ابھی حتمی طبی دعوے کرنا قبل ازوقت ہوگا، لیکن مائیکروبائیوم ہماری صحت کے کئی پہلوؤں میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے، جیسے نظامِ ہاضم سے لے کر ذہنی صحت تک۔ اس لیے جہاں ممکن ہو مائیکرو پلاسٹک کے اثرات کو کم کرنا ایک دانشمندانہ اور ضروری احتیاط ہے۔