اسلام آباد(رپورٹ:،رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس امین الدین خان نے واضح کیا ہے کہ سپریم کورٹ آئین پر انحصار کرتی ہے ، وکلا ء بھی آئین پر انحصار کرتے ہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی ہمیں موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا، چھبیسویں آئینی ترمیم ٹھیک ہے یا غلط؟ فی الحال عدالت نے اسے معطل نہیں کیا، وکیل حامد خان نے کہا کہ آپ تھوڑی دیر کیلئے آرٹیکل191اے کو بھول جائیں،جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ اگر ہم اس آرٹیکل ہی کو بھول جائیں تو پھر تویہ آئینی بنچ ہی ختم ہوجاتا ہے، پھرہم یہاں کیوں بیٹھے ر ہیں؟ جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ اگر ہم اسے بھول جائیں تو پھر آج سپریم کورٹ کا وجود ہی نہیں رہتاہے ، سینئر جج،جسٹس امین الدین خان، کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس عائشہ اے ملک،جسٹس سید حسن اظہر رضوی،جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس نعیم اختر افغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل آٹھ رکنی آئینی بنچ نےبدھ کو 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف مختلف فریقین کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت دائر کی گئی مجموعی طور پر37آئینی درخواستوں کی سماعت کی تو لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان پیش ہوئے اور مقدمہ کی اہمیت کے پیش نظر اس کی سماعت کے لئے سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم سینٹ میں غیر معمولی طریقے سے لائی گئی تھی، یہ ترمیم پارلیمنٹ میں رات کے وقت پاس کی گئی ، اکیس اکتوبر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت سترہ ججز موجود تھے، پچیس اکتوبر کو چیف جسٹس ریٹائر ہوگئے جس کے بعد ججوں کی تعداد سولہ رہ گئی تھی۔