کراچی(رفیق مانگٹ)پاکستان کے بعد سعودی عرب ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ایک نئے دفاعی معاہدے پر مذاکرات کر رہا ہے، جو گزشتہ ماہ قطر کے ساتھ طے پانے والے معاہدے سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت کسی بھی حملے کو امریکی سلامتی کے لئے خطرہ تصور کیا جائے گا۔برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق، سعودی عرب کو امید ہے کہ اگلے ماہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وائٹ ہاؤس کے مجوزہ دورے کے دوران اس معاہدے کو حتمی شکل دی جا سکے گی۔ باخبر ذرائع نے بتایا کہ یہ معاہدہ مضبوط نوعیت کا ہوگا اور اس میں فوجی و انٹیلی جنس تعاون بڑھانے کے لئے اہم اقدامات شامل ہوں گے، جن میں ایف-35 جنگی طیاروں کی خریداری اور ڈرونز سے نمٹنے کے لئے مشترکہ منصوبے بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے تصدیق کی کہ ولی عہد کے دورے کے دوران کسی معاہدے پر دستخط کے امکانات پر بات چیت جاری ہے، تاہم تفصیلات ابھی واضح نہیں ہیں۔ وائٹ ہاؤس اور امریکی محکمہ خارجہ نے معاہدے کی تفصیلات پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ البتہ، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ امریکی دفاعی تعاون ہماری علاقائی حکمتِ عملی کا مضبوط ستون ہے۔ ترجمان کے مطابق، واشنگٹن خطے کی سلامتی کے لئے پرعزم ہے اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر تنازعات کے حل، علاقائی اتحاد کے فروغ، اور دہشت گردوں کو پناہ گاہوں سے محروم کرنے کے لئے کام جاری رکھے گا۔ واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے نے اس معاملے پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کئے ہیں، جس کے مطابق قطر پر کسی بھی حملے کی صورت میں واشنگٹن تمام قانونی اور مناسب اقدامات بشمول سفارتی، اقتصادی اور ضرورت پڑنے پر فوجی اقدامات کرے گا۔گزشتہ ماہ سعودی عرب نے جوہری طاقت سے لیس پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک باہمی دفاع کا معاہدہ کیا، جسے امریکا اور اسرائیل کے لئے ایک واضح پیغام سمجھا جا رہا ہے کہ ریاض اپنی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لئے سیکورٹی اتحادوں کو متنوع بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یوریشیا گروپ کے منیجنگ ڈائریکٹرفیراس مقصاد کے مطابق، یہ ایک واضح اشارہ تھا۔ اگرچہ خطے میں امریکی سلامتی کے ڈھانچے کا کوئی متبادل نہیں، لیکن خلا کو پُر کرنے اور اپنا علاقائی کردار بڑھانے کے دیگر طریقے ضرور موجود ہیں۔سعودی عرب نے اس سے قبل بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ ایک دفاعی معاہدے کے ساتھ اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے لئے مہینوں تک مذاکرات کئے تھے، لیکن 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں جنگ نے ان کوششوں کو متاثر کیا۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے واضح کیا کہ سعودی عرب صرف اسی صورت میں اسرائیل سے تعلقات معمول پر لائے گا جب ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔ تاہم، اسرائیلی وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو اس تجویز کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔اب ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات ایک الگ دفاعی معاہدے سے متعلق ہیں، جو ممکنہ طور پر ایک باقاعدہ معاہدے یا ایگزیکٹو آرڈر کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ فیراس مقصاد کے مطابق، قطر کے ساتھ ایگزیکٹو آرڈر کے بعد دفاعی اور سلامتی کے امور پر اسی نوعیت کی پیش رفت متوقع ہے۔شہزادہ محمد اپنے ٹریلین ڈالر کے ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکا کے ساتھ سلامتی کے تعاون کو لازمی سمجھتے ہیں۔عرب گلف اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ کے سینئر اسکالر حسین ابیش نے خبردار کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی سعودی عرب سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معمول پر لانے کی خواہش ان مذاکرات میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اسے تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی معاہدہ قرار دیا، جس میں فضائیہ، خلائی دفاع، میزائل نظام، اور سمندری و سرحدی سلامتی جیسے شعبے شامل ہیں۔ سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک پچھلے 15 برسوں سے امریکا کے خطے میں عزم اور اس کی پالیسیوں کی غیر یقینی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے آئے ہیں۔