• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکام کی لاتعلقی؛ کرکٹ نشریات میں غیر قانونی بیٹنگ کے اشتہار پر ذمہ داری سے پہلو تہی

اسلام آباد (قاسم عباسی)حکام کی لاتعلقی؛ کرکٹ نشریات میں غیر قانونی بیٹنگ کے اشتہار پر ذمہ داری سے پہلو تہی، حکام کا کہنا ہے کہ یہ لوگو بھارتی براڈکاسٹر کی لائیو فیڈ میں شامل تھا اور مقامی چینل کے لیے اسے ہٹانا ممکن نہیں تھا۔ تفصیلات کے مطابق اگرچہ وفاقی حکومت نے سروگیٹ بیٹنگ کمپنیوں کے خلاف ’’زیرو ٹالرنس‘‘ کی پالیسی کا اعلان کر رکھا ہے، لیکن متعلقہ حکام، خصوصاً ذمہ دار سرکاری عہدیدار، اُس وقت ذمہ داری سے پہلو تہی کرتے نظر آئے جب ایک نجی پاکستانی اسپورٹس چینل نے براہِ راست میچ کے دوران ایک بیٹنگ کمپنی کا ہولوگرام نشر کیا۔ متعلقہ حکام نے اس واقعے کو کم اہمیت دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگو بھارتی براڈکاسٹر کی لائیو فیڈ میں شامل تھا اور مقامی چینل کے لیے اسے ہٹانا ممکن نہیں تھا۔تاہم، یہ وضاحت معیاری نشریاتی اصولوں کے خلاف ہے اور اس بات کی وضاحت نہیں کرتی کہ بیٹنگ کا اشتہار اصل بھارتی نشریات میں کیوں نظر نہیں آیا، مگر صرف پاکستانی نشریات میں دکھائی دیا۔ اس غیر فعال ردعمل کے برعکس، 2023 میں جب پاکستان اور آسٹریلیا کی سیریز کے دوران ایک بیٹنگ کمپنی کا لوگو نشر ہوا، تو پی ٹی وی اسپورٹس کی نشریات روک دی گئیں، باقاعدہ تحقیقات شروع کی گئیں، اور انضباطی کارروائی بھی شروع کی گئی، کیونکہ معلوم ہوا کہ سروگیٹ اشتہار براڈکاسٹر نے مقامی طور پر شامل کیا تھا۔ اتوار کے واقعے سے حکومت کی پالیسی اور اس کے عملدرآمد کے درمیان بڑھتا ہوا فرق ظاہر ہوتا ہے۔ تکنیکی ذرائع کے مطابق، مرکزی براڈکاسٹرز عام طور پر ہر ملک کے لائسنس ہولڈرز کو بغیر کسی اشتہار کے صاف فیڈ فراہم کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ردعمل دیتے ہوئے متعلقہ حکام نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کے اسپورٹس گراؤنڈز اور ٹیموں کا تعلق ہے، بیٹنگ اشتہارات کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ اُن ممالک کا مسئلہ ہے، ہمارا نہیں۔ نقادوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات کی تحقیقات، ضابطہ بندی یا سزا نہ دینا، درحقیقت پابندی شدہ بیٹنگ برانڈز کو سروگیٹ مارکیٹنگ کے ذریعے دوبارہ فعال ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سرکاری ردعمل کے بعد، اس نامہ نگار نے معاملے کے بارے میں مزید سوالات بھیجے جن کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ پاکستانی اسکرینز پر سروگیٹ بیٹنگ اشتہارات کی دوبارہ نمودار ہونا صرف عملدرآمد کی ناکامی نہیں بلکہ ادارہ جاتی غفلت کا گہرا مسئلہ ہے — اور ایک ایسی حکومت کی عکاسی کرتا ہے جو قومی قوانین کو نقصان پہنچانے والے تجارتی مفادات کا سامنا کرنے سے گریزاں ہے۔
اہم خبریں سے مزید