اسلام آباد(رپورٹ :،رانا مسعود حسین ) سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دورن ایک فریق کے وکیل خواجہ احمد حسین نے اس مقدمہ کو فل کورٹ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا آپ حتمی فیصلہ کریں، بس معاملہ فل کورٹ کو ریفر کردیں، آپ کے پاس آرڈر جاری کرنے کا اختیار ہے،یہ بینچ 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت نہیں کرسکتا ،جس پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس بینچ پر اعتمادہی نہیں کررہے ہیں؟ اگر ہم کیس کی سماعت ہی نہیں کرسکتے تو فل کورٹ کی تشکیل کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟آپ نے کہا کیس دوسرے آزاد بینچ کے سامنے جانا چاہیے، کیا آئینی بنچ کے رکن جج بھی حصہ ہونگے؟،سینئر جج،جسٹس امین الدین خان، کی سربراہی میں آٹھ رکنی آئینی بنچ نے بدھ کو آئینی درخواستوں کی سماعت کی تودرخواست گزار افراسیاب خٹک کے وکیل خواجہ احمد حسین نے اس مقدمہ کو فل کورٹ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کرنے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس ادارے کی ساکھ کا انحصار 26 ویں آئینی ترمیم پر نہیں ، اس کیس کو دوسرے آزاد بینچ کی جانب سے سنا جانا چاہیے،جس پرجسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا آپ کو اس بینچ پر اعتماد نہیں ؟تو فاضل وکیل نے موقف اپنایاکہ آئین کے 191 اے کے حوالہ سے فیصلہ اوریجنل فل کورٹ کی جانب سے ہونا چاہیے اور میں نہیں کہہ رہا کہ یہ بینچ آزاد نہیں ، جسٹس جمال مندو خیل نے کہاکہ آپ نے ہی کہا کہ کیس دوسرے آزاد بینچ کے سامنے جانا چاہیے، کیا اس آئینی بنچ کے رکن جج بھی اس آزاد بینچ کا حصہ ہونگے؟ جبکہ جسٹس امین الدین خان نے فاضل وکیل سے استفسار کیا،کہ کیا چیف جسٹس اس آزاد بینچ کا حصہ ہونگے؟جس پر انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس بھی اس بینچ کا حصہ ہونگے۔