کراچی (طاہر عزیز…اسٹاف رپورٹر) کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی تمام تر دعووں کے شہر کے لینڈ ریکارڈ کو تاحال کمپیوٹرائزڈ نہ کر سکی ماہانہ ریونیو ریکوری نہ ہونے کے برابررہ گئی ہے سٹی گورنمنٹ سے الگ ہونے کے بعد تین اہم محکموں لینڈ ،ریکوری اور آئی ڈپارٹمنٹ کی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتی جا رہی ہےذرائع کا کہنا ہے کہ ادارے کےبعض افسران اور ملازمین جن کے مفادات ہیں لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹر ائزڈ کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ادارے کیآمدن خالی اور کمرشل پلاٹوں کی نیلامی ہوتی ہے لیکن گزشتہ ڈیڑھ سال سےیہ عمل رکا ہوا ہے اور اطلاعات ہیں بغیر نیلامی کے بعض پلاٹوں کو ٹھکانے لگایا جا رہا ہےکےڈی اے جو شہریوں کے پلاٹوں کے ٹرانسفر،لیز،موٹیشن،این او سی فار سیل،مارگیج وٖغیرہ کے کام انجام دیتا ہے اور اس کے بدلے فیس وصول کرتا ہے ماضی میں کے ڈی اے کو اس سے اچھی خاصی انکم ہوتی تھی ماہانہ 32کروڑ روپے تک محکمہ ریکوری جمع کر لیتا تھا اب بمشکل دس کروڑ روپے جمع ہوتے ہیں کے ڈی اے ملازمین کی ماہانہ تنخواہیں اور پنشن وغیرہ کے کل اخراجات 56کروڑروپے ہیں حکومت سندھ اسے ماہانہ 40کروڑ روپے گرانٹ دیتی ہےاس طرح کے ڈی اے حکومت سندھ کے لئے سفید ہاتھی بن چکا ہےادارے کے اسٹاف کا کہنا ہے کہ نئے ڈائریکٹر جنرل آصف جان صدیقی بھی صورتحال کو بہتر بنانے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں فنانشل اور انتظامی بحران بڑھتا جا رہا ہےوزیر بلدیات کو اس صورتحال کا فوری نوٹس لینا چاہیے تاکہ ادارہ اپنے پاوں پر کھڑا ہو سکے۔