اسلام آباد(عاطف شیرازی) بہت سے ممالک ٹرمپ کو نایاب اور اہم معدنیات سے نواز رہے ہیں ، جاپان سے پاکستان تک معاہدے ہو رہے ہیں،امریکی جریدے ـ "فارن پالیسی" میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ دنیا بھر میں نایاب معدنیات کی تلاش کے مشن پر نکلےہیں اور دنیا بھر کے ممالک نایاب معدنیات انہیں فراہم کرنے میں کمربستہ ہیں ۔ دوسری مدت کے دوران ٹرمپ کی خارجہ پالیسی امن معاہدوں سے ٹیرف کی دھمکیوں تک آتے ہوئے نایاب معدنیات کے معاہدوں پر مرکوز ہوگئی، یہ معدنیات، جن کی تعداد تقریباً 50ہے اور جنہیں امریکی جیولوجیکل سروے نے امریکا کی قومی سلامتی کے لیے "انتہائی ضروری" قرار دیا ہے، جدید ملٹری ٹیکنالوجیز جیسے میزائل اور لڑاکا طیاروں میں بنیادی خام مال کے طور پر استعمال ہوتی ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ان معدنیات کی پیداوار اور پراسیسنگ کا زیادہ تر حصہ چین کے کنٹرول میں ہے اور چین تجارتی مذاکرات میں اس برتری کو بطور ہتھیار استعمال کرتا رہا ہے۔اسی لیے مختلف ممالک واشنگٹن کے ساتھ شراکت داری کر کے اس انحصار کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ٹرمپ انتظامیہ کی خوشنودی بھی حاصل کر رہے ہیں، میگزین میں جن ممالک کے ساتھ معاہدے ہوئے ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ 8 اکتوبر کو صدر ٹرمپ نے جاپان کی وزیرِاعظم ساناے تاکائچی سے ملاقات کی یہ جاپان کی پہلی خاتون وزیراعظم ہیں اس ملاقات میں امریکی صدر ٹرمپ نے نایاب معدنیات پر تعاون کیلئے ایک ابتدائی فریم ورک معاہدے پر دستخط کیے،اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک واشنگٹن اور ٹوکیو معدنی وسائل کی تلاش، مشترکہ کان کنی کے شعبہ میں سرمایہ کاری اور ذخیرہ اندوزی پر تعاون کریں گے تاکہ اپنی سپلائی چینز کو محفوظ بنا سکیں۔اسی طرح ایشیا کے اپنے پہلے دورے میں ٹرمپ نے ملائیشیا میں آسیان اجلاس میں شرکت کی۔ملائیشیا نے امریکا کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کیا، جس کے تحت دونوں ممالک نے معدنیات کی عالمی سپلائی چین کو متنوع بنانے اور متبادل مارکیٹس کھولنے پر اتفاق کیا، اس معاہدے کے دوران ٹرمپ ٹیرف کو کم کرنے کا عزم بھی کیا گیا۔تھائی لینڈ ایشیا کا دوسرا ملک تھا جہاں ٹرمپ نے اہم معدنیات کی ڈیل کی،اس معاہدے کے تحت امریکا، تھائی لینڈ کے معدنیاتی شعبے کو مضبوط بنانے میں سرمایہ کاری کرے گا اور امریکی کمپنیوں کو ترجیحی رسائی حاصل ہوگی اور امریکا تھائی لینڈ کی معدنیات کی سپلائی چین کو ڈیویلپ کرنے میں مدد کرے گا۔ آسٹریلیا کے وزیرِاعظم انتھونی البانیسی نے بھی ٹرمپ کو خوش کرنے کیلئے معدنیات کا سہارا لیا۔اکتوبر میں واشنگٹن میں ہونے والے دورے کے دوران اہم معدنیات کے حوالے معاہدہ کیا گیا،اس ڈیل کے نتیجےمیں امریکا کو اسٹریلیا کی اہم معدنیات تک رسائی دی جائےگی اور دونوں ممالک کان کنی اور معدنیات کے شعبہ میں تین ارب ڈالر کی مشترکہ سرمایہ کاری کریں گے اس منصوبے کے تحت 53 ارب ڈالر مالیت کے معدنی وسائل دریافت ہونے کی توقع ہے۔ میگزین میں کہا گیا ہے کہ وائٹ ہاوس کےمطابق امریکی محکمۂ دفاع (Pentagon) مغربی آسٹریلیا میں گیلیم (Gallium) کی کان کنی کیلئے جدید ریفائنری میں سرمایہ کاری کرے گا اس سرمایہ کاری کے حوالے سے ٹرمپ نے رپورٹرز کے از راہ تفنن کہاکہ سال کےبعد ہمارے پاس اتنی زیادہ معدنیات ہوجائیں گی ہم اتنی زیادہ معدنیات کا کیا کریں گے۔میگزین کےمضمون میں کہا گیا کہ اہم معدنیات کی دریافت کا مشن تھا جس کیوجہ سے روس اور یوکرین جنگ کا خاتمہ ہوا جو ٹرمپ کی سب سے مشکل سفارتی کوششوں میں سے ایک تھی۔فروری میں، ٹرمپ نے یوکرین کے معدنیات کے 500 بلین ڈالر کا مطالبہ کیا تھا تاکہ امریکہ کو اس امداد کی تلافی کی جاسکے جو اس نے پہلے ہی کیف کو دی تھی۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے پہلے تجویز دی تھی کہ وہ امریکی رہنما کو مطمئن کرنے اور کیف کی جنگی کوششوں کے لیے اپنی مستقبل کی حمایت کو برقرار رکھنے کے لیے ملک کے وسائل تک امریکہ کو رسائی کی پیشکش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم زیلنسکی نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ "ہمارا ملک نہیں بیچ سکتے" اور ٹرمپ انتظامیہ کی ابتدائی تجویز سے اتفاق کرنے سے انکار کر دیا۔اپریل کے آخر میں، ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں زیلنسکی کی( ڈریس کے حوالے سے ) سبکی کے مہینوں بعد، یوکرین اور امریکہ نے امریکی کمپنیوں کے لیے لیتھیم اور ٹائٹینیم جیسے اہم معدنیات کے 100 یوکرائنی ذخائر تک ترجیحی رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔یہاں تک کہ ایک افریقی براعظم میں جو اہم معدنیات سے مالا مال ہے، کانگو نمایاں ہے۔ وسطی افریقی ملک دنیا میں ٹینٹلم اور کوبالٹ کا سب سے بڑا فراہم کنندہ ہے، جس کے پاس سونے اور تانبے جیسی دیگر اشیاء کے بڑے ذخائر ہیں۔ چین نے کانگو اور معدنیات سے مالا مال دیگر افریقی ممالک میں قدم جمانے کے لیے برسوں گزارے ہیں - ایک ایسا غلبہ جسے امریکی انتظامیہ نے توڑنے کی کوشش کی ہے۔ٹرمپ کی تازہ ترین کوشش جون میں سامنے آئی، جب اس نے کانگو اور پڑوسی ملک روانڈا کے درمیان کئی مہینوں کی فوجی دشمنیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک معاہدے میں مدد کی۔ اس معاہدے میں ان دونوں ممالک کے درمیان اہم معدنیات پر تعاون شامل ہے اور حفاظتی ضمانتوں کے بدلے ان معدنی ذخائر تک زیادہ سے زیادہ امریکی رسائی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔تاہم معاہدے کے وہ حصے، جو امریکی قانون سازوں کے اختلاف کا موضوع رہے ان پر بات چیت چل رہی ہے، پاکستان امریکی حکام کئی مہینوں سے یہ اشارہ دے رہے تھے کہ وہ پاکستان کے وسیع اہم معدنی ذخائر تک رسائی میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ستمبر کے اوائل میں یہ ممکن ہو گیا۔ پاکستانی حکومت نے امریکی کمپنی یو ایس اسٹریٹجک میٹلز کے ساتھ 500 ملین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے، جس سے اسے اینٹیمونی اور کاپر جیسی معدنیات تک رسائی حاصل ہوئی۔ میگزین کے مضمون میں کہا گیا کہ پاکستان نے ان معدنیات کی پہلی کھیپ اکتوبر کے شروع میں امریکہ کو بھیجی تھی۔ جنوبی ایشیائی ملک کے اہم معدنی اور دھاتی ذخائر 2لاکھ 30ہزار مربع میل پر پھیلےہوئے ہیں جو کہ برطانیہ کے حجم سے دوگنا زیادہ ہے۔اس سے بڑھ کرٹرمپ نے کسی حد تک غیر روایتی طریقوں سے معدنی پائی کے ایک بڑے ٹکڑے پر قبضہ کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان کا محکمہ دفاع جولائی میں واپس امریکی نادر زمین کی کان کنی کمپنی ایم پی میٹریلز کا سب سے بڑا شیئر ہولڈر بن گیا، اور حال ہی میں ٹرمپ انتظامیہ نے کینیڈا کی دو اہم معدنیات کمپنیوں میں حصص خریدے۔