اسلام آباد (عمر چیمہ) آئی ایم ایف کا پاکستان سے عدالتی کارکردگی اور بیوروکریسی میں احتساب کا مطالبہ، ریاستی زمینوں اور ان کے مالک اداروں کا مرکزی ریکارڈ بنانے، ججوں کی کارکردگی و تقرری میں شفافیت پر زور۔
عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کو مکمل طور پر شفاف بنائے، سرکاری زمین اور اس کے مالک اداروں کا ایک مرکزی اندراجی نظام قائم کرے، ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا طریقہ وضع کرے، بیوروکریٹس کے اثاثوں کے گوشوارے عوام کے سامنے لائے، اور اسٹیٹ بینک کے بورڈ سے سیکریٹری خزانہ کو ہٹائے۔
متعلقہ حکام سے مشورہ کر کے ایک دن میں جواب دیں گے، وزارت خزانہ ترجمان، یاد دہانی کے باوجود جواب سے گریز۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان پر لازم ہے کہ وہ نہ صرف ان سفارشات کو ظاہر کرے بلکہ ان پر عملدرآمد بھی کرے۔ یہ سفارشات آئی ایم ایف کی گورننس اینڈ کرپشن ڈائگناسٹک رپورٹ کا حصہ ہیں، جو حکومتِ پاکستان، سپریم کورٹ، آڈیٹر جنرل اور قومی احتساب بیورو (نیب) سے طویل مشاورت کے بعد تیار کی گئی ہے۔
وزارتِ خزانہ رپورٹ کی اشاعت میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اگرچہ قانوناً وہ رپورٹ کی اشاعت روک نہیں سکتی لیکن وزارت نے بار بار تاخیر کی ہے۔ یہ رپورٹ جولائی کے آخر تک شائع ہونا تھی، لیکن ڈیڈ لائن کئی مرتبہ آگے بڑھائی گئی۔ پاکستان کو یہ رپورٹ آئی ایم ایف کے بورڈ اجلاس سے پہلے شائع کرنا ہوگی، جس میں 1.2؍ ارب ڈالر کی قسط کی منظوری کا فیصلہ کیا جائے گا۔
وزارتِ خزانہ کے ایک سینئر افسر نے اشاعت کی حتمی تاریخ بتانے سے گریز کیا۔ باخبر ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف نے ایس آئی ایف سی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے تمام سرمایہ کاری معاہدوں اور دی گئی مراعات کی تفصیلات کے ساتھ پہلی سالانہ رپورٹ جاری کرے، تاکہ سرمایہ کاری کے عمل میں زیادہ سے زیادہ شفافیت لائی جا سکے۔
کونسل پر یہ بھی لازم کیا گیا ہے کہ وہ بورڈ آف انویسٹمنٹ ایکٹ کی وہ شقیں شائع کرے جو اسے ریگولیٹری چھوٹ یا رعایت دینے کا اختیار دیتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، حکومت کو پبلک پروکیورمنٹ نظام میں اصلاحات کرنا ہوں گی، جن میں ریاستی اداروں کو دی جانے والی ترجیحی مراعات کا خاتمہ اور براہِ راست ٹھیکوں پر پابندی شامل ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت ایک مرکزی اثاثہ جات رجسٹری قائم کرے جو تمام سرکاری زمین کا ریکارڈ رکھے، قانونی مالکان کی نشاندہی کرے، اور زمینوں کی منتقلی کیلئے قواعد پر مبنی طریقہ کار جاری کرے، چاہے یہ منتقلی سرکاری اداروں کے درمیان ہو یا نجی فریقوں کے ساتھ۔
ٹیکس پالیسی اصلاحات کے سلسلے میں رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ایف بی آر کے اندر ٹیکس پالیسی آفس قائم کیا جائے جو ٹیکس پالیسی کو ٹیکس کلیکشن کے کام سے علیحدہ کرے۔ یہ دفتر ایک درمیانی مدت کی ٹیکس سمپلیفکیشن حکمتِ عملی جاری کرے گا تاکہ ٹیکس ریٹس کی پیچیدگی، خصوصی رعایتوں، اور ایڈوانس یا ودہولڈنگ ٹیکس کی زیادتی کم کی جا سکے۔
ایک اہم تجویز یہ بھی ہے کہ اسٹیٹ بینک ایکٹ میں ترمیم کر کے سیکریٹری خزانہ کو اسٹیٹ بینک کے بورڈ سے ہٹا دیا جائے۔ ترمیم کے تحت یہ بھی لازم ہوگا کہ گورنر، ڈپٹی گورنرز یا نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کو برطرف کیے جانے کی وجوہات عوام کے سامنے ظاہر کی جائیں۔
رپورٹ کے مندرجات پر موقف جاننے کے لیے اس نمائندے نے وزارتِ خزانہ کے ترجمان سے رابطہ کیا، جنہوں نے کہا کہ وہ متعلقہ حکام سے مشورہ کر کے ایک دن میں جواب دیں گے، مگر یاد دہانی کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔