• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس امین آئینی عدالت کے چیف جسٹس مقرر، 27 ویں ترمیم پر تحفظات، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللّٰہ مستعفی

اسلام آباد (رانا مسعود حسین / جنگ رپورٹر) صدر نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر جسٹس امین الدین خان کی بطور چیف جسٹس آئینی عدالت تقرری کی منظوری دیدی ہے ۔ وزارت قانون و انصاف نے جسٹس امین الدین خان کی تقرری کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ ادھر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ 27ویں آئینی ترمیم پراپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے ہیں ، جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے استعفے میں کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم ائین پاکستان پر ایک سنگین حملہ کے مترادف ہے، جس نے سپریم کورٹ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے موقف اختیار کیا کہ میں نے جس آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا تھا،اس ترمیم کے بعد وہی باقی نہیں رہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق صدر مملکت نے جسٹس امین الدین خان کی بطور چیف جسٹس آئینی عدالت تقرری کی منظوری دے دی۔ جسٹس امین الدین خان وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس ہوں گے۔ صدر مملکت نے جسٹس امین الدین خان کی تقرری کی منظوری وزیر اعظم کی ایڈوائس پر دی۔ وزارت قانون و انصاف نے جسٹس امین الدین خان کی تقرری کا نوٹی فکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ خیال رہےکہ اس سے قبل جسٹس امین الدین خان آئینی بینچ کے سربراہ تھے، وہ اس ماہ کے آخر میں ریٹائر ہو رہے تھے۔ جسٹس امین الدین خان نے 30؍ نومبر کو عہدہ سےریٹائر ہونا تھا۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ 27ویں آئینی ترمیم پراپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے ہیں ۔ ،جسٹس سید منصور علی شاہ نے 13 صفحات پر مشتمل اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا دیا ہے، جس میںموقف اختیار کیا گیا ہے کہ میں نے اس سلسلہ میں چیف جسٹس آف پاکستان،جسٹس یحیٰ آفریدی کو 2 خطوط بھی لکھے تھے، انہوںنے موقف اختیار کیا ہے کہ27ویں آئینی ترمیم آئین پاکستان پر ایک سنگین حملہ کے مترادف ہے، جس نے سپریم کورٹ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے،اس ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو حکومت کے ماتحت بناکرہماری ائینی جمہوریت کی روح پر کاری ضرب لگائی گئی ہے،جس کے نتیجہ میں انصاف عام ادمی سے دور اور کمزور ہوگیا ہے جبکہ طاقتوروں کے سامنے بے بس ہو گیا ہے،فاضل جج نے قلمبند کیا ہے کہ ملک کی واحد اعلی ترین عدالت کو منقسم کر کے اور عدلیہ کی آزادی کو پامال کرنے سے ملک کو دھائیوں پیچھے دھکیل دیا گیا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ آئینی نظم و نسق کی ہیت میں اس طرح کی تبدیلیاں زیادہ دیر پا ثابت نہیں ہوتیں اور اصلاح ایک یقینی امر ہے مگر اس کے چھوڑے ہوئے زخم کے نشانات مندمل نہیں ہو سکتے،انہوںنے مزید لکھا ہے کہ اس نازک موڑ پر میرے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو میں ایک ایسے انتظام کا حصہ بن کر رہوں جو اس ادارے کی ہی بیخ کنی کرتا ہے۔

kk


اہم خبریں سے مزید