کراچی ، کابل ( ایجنسیاں،جنگ نیوز) سرحدی کشیدگی اور بار بار کی بندشوں کے باعث افغانستان نے اپنی تجارتی توجہ تیزی سے پاکستان کے بجائے ایران اور وسطی ایشیائی راہداریوں کی طرف منتقل کرنا شروع کر دی ہے ۔ افغان حکام نے تجارتی انحصار کی وجہ سے پاکستان کو حاصل سفارتی غلبے کو حوالہ بناتے ہوئے ترکمانستان، ازبکستان ، تاجکستان اورچین کے راستوں پرتیزی سے پیش رفت کرنا شروع کر دی ہے۔ چاہ بہار پورٹ پرٹیرف میں 30٪ کمی، اسٹوریج فیس میں 75٪ رعایت اور ڈاکنگ چارجز میں 55٪ کمی کی گئی ہے نیز امریکا نے بھارت کو چاہ بہار بندرگاہ آپریٹ کرنے کےلیے 6 ماہ کا مزید استثنیٰ دے دیا ہے ، چاہ بہار بندہ گاہ نے افغان تاجروں کا اعتماد بحال کرنے میں مدد کی ہے۔ 6ماہ میں ایران سے تجارت1.6ارب ڈالر پرپہنچ گئی، پاکستان سے1.1ارب ڈالر پر اٹک گئی ہے۔ افغانستان نے پاکستانی ادویات کم معیاری قرار دیتے ہوئے ان کی کلیئرنس روک دی ہے جبکہ افغان نائب وزیراعظم ملاعبدالغنی برادر نے افغان تاجروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے معاہدوں کو 3 ماہ کے اندراندر نمٹائیں۔ ادھرپاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمدآصف نے دعویٰ کیا ہےکہ افغا ن تجارت کےلیے دیگربندرگاہیں استعمال کرنے سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ افغان حکام کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں سے پاکستان کے ساتھ سرحد بند ہونے کے بعد یہ فیصلہ مزید تیز ہوگیا ہے۔تجارتی انحصار کی وجہ سے پاکستان کو افغانستان پر دیرینہ سفارتی دباؤ حاصل رہا، لیکن اب کابل ایران کی بندرگاہ چاہ بہار اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے راستوں کو اپنا متبادل بنا رہا ہے، جہاں ایران کی جانب سے دی گئی نمایاں رعایتیں اور سہولتیں افغان تاجروں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔افغان وزارتِ تجارت کے ترجمان عبدالسلام جواد اخون زادہ نے بتایا کہ گزشتہ چھ ماہ میں ایران کے ساتھ افغانستان کی تجارت 1.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے، جو اسی عرصے میں پاکستان کے ساتھ ہونے والی 1.1 ارب ڈالر کی تجارت سے کہیں زیادہ ہے۔"چاہ بہار کی سہولتوں نے تاخیر کم کر دی ہے اور تاجروں میں یہ اعتماد پیدا کیا ہے کہ سرحد بند ہونے پر بھی ان کی ترسیل نہیں رکے گی۔"افغان نائب وزیراعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر نے تاجروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ تین ماہ کے اندر پاکستان کے راستے ہونے والے تجارتی معاہدوں کو نمٹا کر متبادل راہیں اختیار کر لیں۔