اسلام آباد (رپورٹ،عبدالقیوم صدیقی) 27ویں آئینی ترمیم پر چیف جسٹس پاکستان سمیت تمام ججوں کو مستعفی ہونے کی تجویز فل کورٹ اجلاس میں پذیرائی حاصل نا کر سکی۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ ذرائع کے مطابق مستعفی ججوں کے خطوط اور ستائیسویں آئینی ترمیم سے پارلیمنٹ کو روکنے کیلئے ادارہ جاتی ردعمل کے حوالے سے بلائی گئی فل کورٹ میٹنگ میں 13کے قریب جج شریک ہوئے تھے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے 23 ججوں میں سے دو سابق جج منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ مستعفی ہو چکے تھے جبکہ جسٹس امین الدین خان ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس باقر نجفی وفاقی آئینی عدالت کے جج نامزد ہو چکے تھے۔ وہ فل کورٹ میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے تاہم جسٹس منیب اختر ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مسرت ہلالی ذاتی مصروفیات کے باعث شریک نہ ہوئے۔ ذرائع کے مطابق فل کورٹ میٹنگ چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیمبر میں ہوئی۔ میٹنگ شروع ہوتے ہی کئی جج صاحبان نے کہا کہ آج کا دن بہت افسوسناک ہے کہ ہمارے دو جج مستعفی ہو چکے ہیں، ستائیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے عدلیہ کو اپنا ردعمل دینا چاہیے۔ اس پر اجلاس میں موجود ایک جج صاحب نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ کے پاس ایسا کونسا اختیار ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے کہا جائے کہ پارلیمنٹ جس کا کام آئین اور قانون سازی کرنا ہے اسے یہ اختیار استعمال کرنے سے روک دیا جائے۔ سپریم کورٹ کے پاس ایسا کونسا آئینی اور قانونی اختیار ہے۔ ذرائع کے مطابق کچھ جج صاحبان نے فل کورٹ کی جانب سے حکومت کو خط لکھنے کی تجویز دی تو چیف جسٹس نے کہا کہ جج صاحبان کو بھی خط لکھنے کی بجائے مجھ سے ملکر بات کرنا چاہئے تھی میرے دروازے ہمیشہ سب کیلئے کھلے ہیں میں خطو ط لکھے جانے کو درست بات نہیں سمجھتا البتہ عدالت کے پاس جوڈیشل ریویو کا اختیار ہے جو عدالت استعمال کر سکتی ہے۔ اسکے سوا پارلیمنٹ کو کیسے قانون سازی سے روکا جا سکتا ہے اس جواب پر بھی اکثریتی ججز نے ستائیسویں آئینی ترمیم پر شدید تحفظات کا اظہار جاری رکھا اور ادارہ جاتی ردعمل پر اصرار کیا۔