• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان وزیراعلیٰ آفریدی کے ذریعے ایک اور 26 نومبر کرانا چاہتے تھے، سرکاری دعویٰ

انصار عباسی

اسلام آباد :…وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی بہن عظمیٰ خانم کی حالیہ ملاقات اس واضح شرط کے ساتھ کرائی گئی تھی کہ اس کے بعد کوئی ’’فوج مخالف یا اشتعال انگیز پیغام‘‘ نہیں آئے گا، تاہم اس کی خلاف ورزی کی گئی۔ دی نیوز سے بات کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت کی جانب سے عمران خان کی خیریت کے بارے میں قیاس آرائیاں ختم کرنے کیلئے سہولت دینے کے باوجود، عمران خان کی بہن عظمیٰ خانم نے ملاقات کے فوراً بعد ’’فیلڈ مارشل کے خلاف توہین آمیز بیان بازی‘‘ کا سہارا لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب اڈیالہ جیل سے آنے والے ایسے کسی بھی پیغام کو ’’بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘ ذرائع نے بتایا کہ رانا ثناء اللہ، قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق اور وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عمران خان اور عظمیٰ خانم کی ملاقات کرانے کی سفارش وزیراعظم سے کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ مقصد یہ تھا کہ عمران خان کے اہلخانہ خود ان کی حالت دیکھ سکیں اور ان کی صحت سے متعلق افواہیں ختم ہو سکیں۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ حکومت کے پاس معلومات تھیں کہ اڈیالہ جیل سے فوج مخالف پیغام رسانی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق ملاقات اس شرط پر ہی کرائی گئی تھی کہ اسے سیاسی رنگ نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ اس سہولت کو ’’اشتعال انگیز اور ناقابل قبول‘‘ پیغام رسانی کیلئے استعمال کیا گیا۔ اس سلسلے میں ایک اور پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی ملاقات کی درخواست انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پر مسترد کی گئی۔ ان کا الزام تھا کہ عمران خان رواں سال بھی 26؍ نومبر جیسے ایک اور واقعے کا منصوبہ بنا رہے تھے، اور سہیل آفریدی کی بطور وزیراعلیٰ تقرری اسی منصوبے کا حصہ تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ منصوبہ ناکام بنا دیا گیا ہے۔ 26؍ نومبر 2024ء کو پاکستان تحریک انصاف کے ہزاروں کارکن اسلام آباد کی طرف مارچ کرتے ہوئے وفاقی حکومت کیخلاف احتجاج اور عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ حکومت کی جانب سے عائد کردہ دفعہ 144؍ کی خلاف ورزی پر یہ احتجاج شدید جھڑپوں میں بدل گیا، جہاں پولیس اور نیم فوجی دستوں نے ریڈ زون کی جانب جانے والے افراد کو روکنے کیلئے کنٹینرز، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں استعمال کیں۔ پہلے تو پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ سیکڑوں کارکن مارے گئے، لیکن بعد میں کہا گیا کہ ہلاک شدگان کی تعداد 13؍ کے قریب تھی۔ حکومت نے ان دعووں کی تردید کی، لیکن فیصلہ کیا کہ آئندہ اسلام آباد کی جانب کسی مارچ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پی ٹی آئی کے کئی رہنمائوں کے مشورے کے برخلاف، یہ مارچ بشریٰ بی بی کی قیادت میں ہوا۔ پارٹی قیادت چاہتی تھی کہ مارچ کو سنگجانی کے مقام پر روکا جائے، لیکن عمران خان کی اہلیہ اسلام آباد کے ڈی چوک تک جانے پر بضد تھیں۔ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے امکان کے بارے میں وزیراعظم کے مشیر نے سخت موقف اختیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک عمران خان 9 مئی کے واقعات اور اپنی فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف دیے گئے بیانات پر علانیہ معافی نہ مانگیں گے تب تک سیاسی بات چیت ناممکن نظر آتی ہے۔ سابق وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ نے یاد دہانی کرائی کہ حکومت پہلے بھی سنجیدہ مذاکرات کی پیشکشیں کر چکی ہے، لیکن ان کے مطابق عمران خان خود ایک ’’بڑی رکاوٹ‘‘ بنے رہے۔ انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ابتدائی رابطے اس وقت سبوتاژ ہوئے جب عمران خان نے یہ شرط رکھ دی کہ 9؍ مئی اور 26؍ نومبر کے واقعات کی تحقیقات کیلئے سابق جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا جائے۔ رانا ثناء اللہ کے یہ ریمارکس اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی قیادت کے حوالے سے حکومت کا موقف مزید سخت ہو گیا ہے اور مستقبل کی کسی بھی سیاسی مفاہمت کو واضح معافی اور ریاستی اداروں پر تنقید کے خاتمے سے مشروط کر دیا گیا ہے۔

اہم خبریں سے مزید