پشاور(نیوز رپورٹر) پشاور ہائیکورٹ نے ایڈورڈز کالج پشاور کے بورڈ آف گورنرز ( بی او جی) کا چیئرمین وزیر اعلیٰ کو بنانے کے خلاف دائر درخواست پر صوبائی حکومت کو نوٹیفکیشن پر مزید کارروائی سے روک دیا اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کرکے 23 دسمبر تک جواب طلب کرلیا۔ کیس کی سماعت پشاورہائیکورٹ کے جسٹس محمد نعیم انور اور جسٹس کامران میانخیل پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔ گورنر خیبر پختون خوا فیصل کریم کنڈی کے وکیل شمائل احمد بٹ ایڈوکیٹ نے عدالت کوبتایا کہ قانون کے مطابق ایڈورڈ کالج بی او جی چیئرمین کا اختیار گورنر کے پاس ہے، 1974 قانون کے اعلامیہ کے مطابق بورڈ آف گورنرز کا چیئرمین گورنر ہوگا، اس حوالے سے سپریم کورٹ کے واضح فیصلے موجود ہے تا ہم کابینہ اجلاس میں خیبرپختونخوا ایجوکیشنل اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ 1971 کے تحت وزیر اعلیٰ کو چیئرمین بی او جی مقرر کیا گیا ہے۔ شمائل احمد بٹ ایڈووکیٹ نے عدالت نے کوبتایا کہ قدیم درسگاہ ایڈورڈ کالج 1900 میں کرسچین مشنری سروس نے قائم کیا تھا کہ تاکہ تعلیم کی کمی کو دور کیا جا سکے جسے بعد میں پرائیویٹ سکول اتھارٹی نے 1972 کے تحت صوبائی حکومت کے حوالے کیا تاہم اس ضمن میں یہ قرار دیا تھا کہ تمام معاملات بورڈ آف گورنر چلائے گا جس کے چیئرمین گورنر ہونگے تاہم صوبائی کابینہ نے 2 اکتوبر کو ایڈورڈز کالج کا کنٹرول ہاتھ میں لینے کی ابتداء کی اور اس کے بعد باقاعدہ طور پر 14 اکتوبر اور 29 اکتوبر کو دو الگ الگ نوٹیفکیشن جاری کئے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ جب تک صوبائی حکومت اس حوالے سے کالج کے امور سے متعلق فیصلہ نہیں کرتی تب تک کوئی بھی مستقل پرنسپل کی تعیناتی نہ کرے ۔ہائیرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے اس ضمن میں کالج کے پرنسپل اور دیگر کو بھی خطوط لکھے۔ رٹ کے مطابق سپریم کورٹ اف پاکستان نے 2024 کے ایک فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ایڈورڈز کالج کے تمام امور بورڈ اف گورنرز ہی چلائے گی اور گورنر اس کے چیئرمین ہونگے تاہم اس ضمن میں جو صوبائی حکومت نے جو فیصلہ کیا ہے وہ اپنے اختیارات سے تجاوز ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ حالیہ اختیارات کے رسہ کشی میں ایڈورڈز کالج تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے اور گزشتہ سال 7 سو سے زائد طلبا فیل ہو گئے اور اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں پر موجود اختیارات کی جنگ ہے جس میں مختلف گروپس بن گئے ہیں اور وہ اختیارات کی رسہ کشی کررہے ہیں اس ضمن میں متعدد فیصلے بھی ائے اور متعدد مواقعوں پر ان اختیارات کو صوبائی حکومت کو منتقل کرنے کی بھی کوشسش کی گئی تاہم 2024 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا فیصلہ اس پر قدغن ہے اور اب صوبائی حکومت نے اسی فیصلے کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہ نیا اقدام اٹھایا ہے جس میں صوبائی حکومت کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایڈورڈذ کالج کے مستقل تعیناتی کے حوالے سے فیصلے کرے جو کہ غیر ائینی اور غیرقانونی ہے انہوں نے رٹ میں استدعا کی ہے کہ صوبائی کابینہ نے جو فیصلے اور نوٹیفیکیشنز ہائیرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے کئے ہیں وہ کالعدم قرار دیئے جائیں کالج کے امور گورنر کے زیر نگرانی چلانے کا حکم جاری کرکے 29 اکتوبر کے فیصلے کے بعد کئے گئے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دیا جائے عدالت نے ابتدائی دالائل سننے کے بعد صوبائی حکومت کو نوٹیفکیشن پر مزید کارروائی سے روک دیا عدالت نے صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کرکے 23 دسمبر تک جواب طلب کرلیا۔