• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چترال کے مقامی افراد کی زمینیں حکومتی ملکیت قراردینے کیخلاف پٹیشنزنمٹا دی گئیں

پشاور(نیوز رپورٹر) پشاورہائیکورٹ نے صوبائی حکومت کی جانب سے چترال کے مقامی افراد کی زمینیں حکومتی ملکیت قراردینے کے خلاف دائر رٹ پٹیشنزنمٹاتے ہوئے قراردیاہے کہ 1975کے نوٹیفکیشن کے تحت ان زمینوں کو حکومتی ملکیت قراردیا گیا تھا تاہم اگر چترال کے مقامی افراد کے پاس زمینوں کی دستاویزی ثبوت موجود ہیں تو وہ متعلقہ فورم یعنی سول کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں اور سول کورٹ اس حوالے سے مالکان کے حق میں ڈگری جاری کر سکتی ہے عدالتی فیصلے کے مطابق حکومتی نوٹیفکیشن ایسا نہیں ہے جو واپس نہیں لیاجاسکتا ہو۔عدالت نے تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے ۔مذکورہ درخواستیں گزشتہ 6سال سے ہائیکورٹ میں زیرسماعت تھیں۔ جسٹس وقار احمد اور جسٹس خورشید اقبال پر مشتمل دورکنی بنچ نے سابق ایم پی اے غلام محمد، سابق ایم این اے شہزادہ افتخار الدین ، عنایت اسیر وغیرہ کی درخواستوں پر سماعت کی تھی جبکہ 31صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس وقار احمد نے تحریر کیا ہے۔ اس دوران درخواست گزاروں کے وکلاءبیرسٹر اسد الملک، ڈاکٹر عدنان خان، محب اللہ تریچوی، وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل گوہر رحمان خٹک اور صوبائی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل مزمل خان پیش ہوئے۔درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ دیر،چترال اور سوات ایڈمنسٹریشن ریگولیشن 1969کے تحت چترال کا علاقہ بھی 1969میں پاکستان میں ضم ہوا ، اس دوران چترال کی زمینی تنازعہ پر انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیاجس نے حکومت اور مقامی افراد کے درمیان ان زمینوں کی ملکیت کا تعین کیا تاہم جو زمینیں متنازعہ نہیں تھی اس حوالے سے کمیشن بھی خاموش رہا۔ رٹ درخواستوں کے مطابق31جولائی 1975 کو ہوم اینڈ ٹرائیبل افیئرز ڈیپارٹمنٹ نے نوٹیفکیشن جاری کرکے لوگوں کی زمینوں کو قانونی تحفظ دیا  ۔دوسری جانب عدالت نے تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پرتفصیلی فیصلے میں قراردیاہے کہ ان زمینوں کی سیٹلمنٹ کا آپریشن تاحال جاری ہے اور یہ ابھی نوٹیفائی نہیں ہوا ہے اور زیادہ تر زمینوں کو دستاویزی شکل میں لایا گیا تاہم ابھی حتمی نوٹیفکیشن نہیں ہوا ہے۔ درخواست گزاروں نے خاص طور پر بنجرزمین اور پہاڑوں کی ملکیت سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جہاں ان کی زرعی زمینیں ہیں اور چراہ گاہوں میں ان کے جانور بھی ہوتے ہیں ۔