رضیہ جوہر
کہیں پڑھا تھا کہ ’’عورت انگور کی نازک بیل کی مانند ہے، جسے باغبان جس دیوار اور جس ستون کے سہارے کھڑا کر دے، بس وہی اس کی زندگی کا محور ہوتا ہے۔‘‘یہ بات دَور قدیم کے مَر د کی سوچ اور خواہش تو ہو سکتی ہے، لیکن موجودہ دَور میں ایسا ممکن نہیں کہ بدلتے وقت اور حالات کے تقاضوں نے کم از کم باشعور مَرد کو تویہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اب عورت کے ساتھ اپنے رویوں اور معاشرے کی کھوکھلی روایات کو بدلنا ہو گا۔ بلاشبہ، اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور گھر کے ماحول کو خوش گوار اور ساز گار رکھنے کے لیے عورت کا تعاون اور ساتھ بے حد ضروری ہے، مگر بدقسمتی سے آج بھی کئی پس ماندہ ذہنیت کے حامل مَردوں کے لیے عورت کی حیثیت ان کی مفتوح زمین جیسی ہے، جس کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کیا جائے، کوئی عیب اور گناہ کی بات نہیں۔ ہاں ،اگر عورت اس ظلم و زیادتی کے خلاف زبان بھی کھولے ،تو اسے خودسَر اور بے حیا کا لقب دے کر کڑی سے کڑی سزا دی جاتی ہے۔ کبھی اس پر تیزاب پھینکا جاتا ہے، تو کبھی بال کاٹ دیے جاتے ہیں۔ مانا کہ ہمارے معاشرے میں مَرد کی حاکمیت، اسی کا بول بالا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت گھر کی عمارت کا وہ اہم ستون ہے، جو اگر اپنی جگہ سے ہٹ جائے ،تو پوری عمارت خطرے میں پڑ سکتی ہےاور پھر در و دیوار کی شکستگی سب ہی رشتوں کو کم زور کر دیتی ہے، ان میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں،اور پھر یہی وہ اہم ترین سبب ہے، جو بچّوں کی شخصیت مسخ کر کے انہیں معاشرے کا باغی اور خود سَرفرد بنا دیتا ہے۔
عورت کو کم تر اور ناقص العقل سمجھنے اور اس کا استحصال کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ ایک مَرد کو معاشرے میں جو عزّت ملی ہے اور وہ آج جس مقام اور مرتبے پر فائز ہے، وہ اس کی اپنی محنت و قابلیت سے پہلے اس کی ماں کی بہترین نگہداشت، تعلیم و تربیت اور دُعائوں کا نتیجہ ہے، لہٰذا کیا ہی اچھا ہو کہ امسال خواتین کے عالمی دِن کے موقعے پرمَرد اعلیٰ ظرفی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر عورت کو عزّت و احترام دینے کاوعدہ کریں۔ اور اپنے ان تمام تر منفی رویّوں پر نادم ہوں، جو انھوں نے معاشرے کی خواتین کے ساتھ روا رکھے۔ عورت گھریلو خاتون ہو یا ورکنگ وومن، اُسے اس نامہربان اور بے ایمان معاشرے کی بے مروت زمین پر اپنے قدم جمانے کے لیے بہرحال، مَرد کے اعتماد اور تحفّظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا والے بھی اسی عورت کو قابلِ تعظیم سمجھتے ہیں، جسے گھر میں اپنوں کا اعتماد اور احترام حاصل ہو۔ اگر باپ، بھائی یا شوہر رواجوں کے بندھن میں جکڑی اپنی بہن، بیٹی کو ناکردہ گناہوں کی سزا دینے لگیں، اُن پر اعتماد نہ کرتے ہوئے انھیں شک کی بھٹی میں جھونک دیں۔ اُن پر بلاوجہ نکتہ چینی کریں۔ اُن کے ہر عمل کو تنقید کا نشانہ بنائیں، تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ ڈر سہم کر اپنا اعتماد کھو بیٹھیں گی۔ اس لیے زندگی کو کسی بھی المیے سے محفوظ رکھنے کے لیے لازم ہے کہ مَرد اپنی مردانہ برتری کے زعم سے نکل کر عورت کے اَن مول وجود کو تسلیم کرے، اُسے برابری کے حقوق دے۔ اس کی خوبیوں اور اچھائیوں کو سراہے۔ اُسے معاشرے میں سَر اٹھا کر جینے کا حق دے کہ عورت تو سراپا محبّت ہے۔ وہ محبّت کی زرخیز مٹّی سے پھوٹنے والا وہ قیمتی پودا ہے، جو صرف چاہت و توجّہ کی ٹھنڈی چھائوں تلے ہی پھلتا پھولتا اور تر و تازہ رہتا ہے اور پھر اُس کا خوش نما رنگ اور روح پرور مہک آس پاس کے ماحول کو بھی معطر رکھتی ہے۔ آپ ذرا عورت کو اپنی محبّت، اعتبار و اعتماد اور تحفّظ دے کر دیکھیں، وہ اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں سے آشیانے کو خوشیوں کا گہوارہ نہ بنادے، تو کہیے گا۔
روبینہ شاہد
شاعرِ مشرق نے سچ ہی کہا تھا کہ ’’وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ‘‘۔بلاشبہ،قدرت کے ہر دِل کَش و دل نشیں نظارے کی کشش اِک عورت ہی کے دَم سے ہے، مگر اس کے باوجود یہ حوّا زادی آج کے اس تیز ترین دَور میں بھی بہت بے بس و لاچار نظر آتی ہے۔ یوں تو دُنیا کے ہر خطّے ہی میں خواتین سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، مگر پاکستانی عورت کا المیہ یہ ہے کہ اُسے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے مُلک ہی میں جاہلانہ رسوم و رواج کی بھینٹ چڑھا یا جاتا ہے۔ یہاں عورت کے کھیتوں میں محنت و مشقت کرنے پر تو کوئی روک ٹوک نہیں، لیکن متعدد جگہوں پر آج بھی تعلیم کے دروازے اُس پر بند ہیں اور اگر خوش قسمتی سے کوئی پاکستانی عورت اپنی ذہانت، محنت اور ہمّت کے بل پر دُنیا میں نام وَر ہو بھی جائے، تو اُسے رشک بھری نظروں کی بجائے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ معاشرے کی بے حسی دیکھیں کہ اگر عورت چلتی پھرتی مشین بھی بن جائے، اپنے نکھٹّو شوہر اور کم سِن بچّوں کو پالنے کے لیے ملازمت اور گھر میں کولھو کے بیل کی طرح کام بھی کرے، تو بھی کسی کو اُس کی حالت پر رحم نہیں آتا۔
اسی طرح ہر عورت ہی اپنا گھر قائم رکھنا چاہتی ہے۔اپنے بچّوں کو باپ کی شفقت سے محروم نہیں کر سکتی۔اسی لیے اگر شوہر دوسری شادی بھی کرلیتا ہے، تو بھی ہر ممکن طور پر یہ رشتہ نبھانے کی کوشش کرتی ہے، کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ یہ معاشرہ ایک عورت کو مَرد کے بغیر جینے کی اجازت نہیں دیتا۔عورت اگر گھر کی نگراں ہو، تو ایک دِن میں کئی کئی ذمّے داریاں نبھاتی ہے۔ کبھی باورچن اور دھوبن کے رُوپ میں تو کبھی معالج، معلّم اور منتظم کے رُوپ میں۔ وہ اپنے تمام فرائض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہے، مگر اپنے نازک کاندھوں پر اَن گنت ذمّے داریوں کے بوجھ اُٹھائے رکھنے کے باوجود بھی تھکتی نہیں، کیوں کہ اُسے زندگی کے سفر کو رواں دواں رکھنا ہے۔ وہ ہر ایک کا خیال رکھنے کی کوشش میں یہ فراموش کر دیتی ہے کہ خود اس کا وجود بھی توجّہ کا مستحق ہے، لیکن جن رشتوں کی خاطر وہ اپنی ہستی کو گرہستی کی نذر کر دیتی ہے، اُن میں سے کوئی ایک بھی اُسے ستایشی نظروں تک سے نہیں دیکھتا۔مگر اس کے باوجود بھی نہ جانے کتنی عورتیں کوئی گلہ شکوہ کیے بغیر محبّت و خلوص اور ایثار و وفا کے جذبات اور بُلند عزائم کے ساتھ کائنات کے کینوس میں رنگ بَھرنے میں مصروف ہیں۔ غالباً خون کے آنسو پیتی بنتِ حوّا اس اُمید پر جیتی ہے کہ اِک نہ اِک روز ظلم و جبر کی سیاہ رات کو چیر کر سپیدۂ سحر ضرور نمودار ہوگا۔
افشین ارشد
اس بار ’’خواتین کے عالمی دِن‘‘(8مارچ)کے موقعے پر اگر آپ اپنی سہیلیوں کومدعو کرنے کا سوچ رہی ہیں، تو فوراً ہی دعوت دے ڈالیں کہ آج آپ کے خاص دِن کے خاص دسترخوان کے لیے کچھ بہت ہی مزے مزے کی تراکیب پیش کی جارہی ہیں۔
میری نیٹڈ گریوی چکن
اجزاء:چکن آدھا کلو،نمک حسبِ ذائقہ،ادرک، لہسن کا پیسٹ ایک کھانے کا چمچ،لال مرچ پِسی ہوئی ایک کھانے کا چمچ،گرم مسالا پِسا ہوا ایک چائے کا چمچ،سرکہ دو کھانے کے چمچ،ٹماٹو کیچپ چار چائے کے چمچ،ٹماٹر کا پیسٹچار کھانے کے چمچ،دہی آدھی پیالی،کارن فلور چار کھانے کے چمچ،کڑی پتاحسبِ ضرورت،ہری مرچیں تین سے چار عدد،زردہ رنگ چُٹکی بَھر،انڈا ایک عدد اور تیل۔
ترکیب:سب سے پہلے چکن کی چھوٹی چوکور بوٹیاں کرلیں اور انڈا پھینٹ کر اس میں بوٹیاں، نمک، ادرک، لہسن کا پیسٹ، لال مرچ، زرد ہ رنگ، کارن فلور اور دہی ڈال کر آدھے گھنٹے کے لیے میری نیٹ کریں۔اب کڑاہی میں تیل گرم کریں اور ان بوٹیوں کو فرائی کر کے نکال لیں۔ ساس بنانے کے لیے چھوٹے ساس پین میں تیل گرم کر کے اس میں ادرک، لہسن کا پیسٹ، نمک، لال مرچ، گرم مسالا، سرکہ، ٹماٹو کیچپ، ٹماٹر کا پیسٹ اور کڑی پتا ڈال کر گاڑھا ہونے تک پکائیں۔ پھر اس میں فرائی کی ہوئی چکن ڈال کر ہلکی آنچ پر دَم پہ رکھ دیں۔لیجیے، مزے دارگریوی چکن تیار ہے۔ ڈش میں نکال کر اُبلے ہوئے چاولوںکے ساتھ تناول فرمائیں۔
اچاری ماہی بریانی
اجزاء: مچھلی کے قتلےدرمیانے سائز کےچھے عدد، دہی ایک کپ،ادرک، لہسن کا پیسٹ ایک کھانے کا چمچ،لال مرچ پِسی ہوئی ایک کھانے کا چمچ،گرم مسالا پِسا ہوا آدھاچائے کا چمچ،ہلدی ایک چا ئےکاچمچ، لیموں کا رس تین سے چار کھانے کے چمچ،لال مرچ کٹی ہوئی ایک چائے کا چمچ،ہری مرچیں بڑی چھے عدد،ہرا دھنیا ایک گڈی، پودینا چند پتّے،کڑی پتاچھے سے آٹھ عدد،زردہ رنگ چٹکی بھر (دودھ میں گھول لیں)،کیوڑاتین سے چار قطرے،چاول آدھا کلو،ثابت گرم مسالاحسبِ ضرورت اور تیل۔
اچاری مسالے کے اجزاء: سونف ایک چائے کا چمچ،ثابت دھنیاایک چائے کا چمچ،سفیدزیرہ ایک چائے کا چمچ،رائی دانہ ایک چائےکا چمچ اور میتھی دانہ آدھا چائے کا چمچ۔ان سب کو بھون کر پیس لیں۔
ترکیب :سب سے پہلے مچھلی کے ٹکڑے دھو کر، نمک، ادرک، لہسن کا پیسٹ ، دہی ، لال مرچ، ہلدی، کٹی ہوئی مرچ، گرم مسالا اور لیموں کا رس لگا کر بیس منٹ کے لیے میری نیٹ کرلیں۔ اب ہری مرچوں کو چاک کرکے بیج نکال دیں اور آدھا پِسا ہوا اچاری مسالا بَھر کر الگ رکھ دیں۔اس کے بعد ایک کُھلے مُنہ کی دیگچی میں تیل گرم کریں اور اس میں کڑی پتا اور ساتھ ہی مچھلی بھی ڈال کر تیز آنچ پر فرائی کرلیں۔ فرائی ہوجائے تو آنچ دھیمی کردیں اور ڈھکن ڈھک کر دَم پر رکھ دیں۔ تیل اوپر آجائے، تو باقی بچا ہوا اچاری مسالا، ہرا دھنیا، پودینے کے پتے اور مسالا بَھری ہری مرچیں ڈال کر چولھا بند کردیں۔ چاول پکانے سے قبل دھو کرگھنٹے بھر کے لیے بِھگو دیں۔ پھر ایک پتیلے میں ایک کلو پانی لے کر چولھے پر رکھیں اور اس میں نمک ، ثابت گرم مسالا (جس میں بڑی الائچی، دار چینی کا ایک ٹکڑا، پانچ لونگ ، چھے دانے کالی مرچ اور دو تیز پات شامل ہوں) ڈال کرکے ابلنے دیں۔ جب پانی کھولنے لگے، توچند پتّے پودینے کے ڈال کر ساتھ ہی چاول بھی شامل کردیں۔ چاول ایک کنی رہ جائیں، تو چولھے سے اُتار کر کسی چھلنی میں چھان کر رکھ لیں۔ اب ایک کھلے مُنہ کے پتیلے میں تھوڑا سا تیل لگاکرسب سے پہلے چاول کی تہہ لگائیں، پھر مچھلی اور مسالا بھری مرچوں کی اور اس کے اوپر اُبلے ہوئے چاول ڈال دیں۔ آخر میں تلی ہوئی پیاز، ہرا دھنیا ، پودینا اورساتھ ہی زردہ رنگ اور کیوڑا چھڑک دیں۔ پندرہ سے بیس منٹ دَم پر رکھیں،اس کے بعد آہستہ آہستہ مکس کریںکہ مچھلی کے قتلے ٹوٹیں نہیں۔ ڈش میں نکال کر ہرے دھنیے سے گارنیش کرکے سلاد ،رائتے کے ساتھ پیش کریں۔
مائیو چنا سالسا
اجزاء:مائیونیز چار کھانے کے چمچ،سفید چنے اُبلے ہوئےایک پیالی،لال لوبیا (اُبال لیں) ایک پیالی، ٹماٹر بغیر بیج کے،کیوبز میں کٹا ہوا ایک عدد، پیاز درمیانی سائز کا، چھوٹے کیوبز میں کٹا ہوا ایک عدد، کھیرا ،کیوبز میں کٹا ہوا ،ایک عدد ،چاٹ مسالا ایک چائے کا چمچ، نمک حسبِ ذائقہ اورہرا دھنیا باریک کٹا ہوا گارنیشنگ کے لیے۔
ترکیب:تمام اجزاء ایک بڑے پیالے میں ڈال کر مائیونیز کے ساتھ اچھی طرح مکس کرکے ہرے دھنیےسے گارنیشن کرلیں۔ مزے دار مائیو چنا سالساتیار ہے۔
اسٹرابری یوگرٹ ڈیلائٹ
اجزا ء:دہی ایک کلو،کنڈیسنڈ مِلک ایک ڈبّا، اسٹرابیری جیلی پاؤڈرایک پیکٹ،اسٹرابیری کیوبز دو کپ،تازہ کریم ایک پیکٹ اور جیلاٹن پاؤڈر ایک کھانے کا چمچ۔
ترکیب:جیلاٹن پاؤڈر تھوڑے سے پانی میں گھول لیں۔ایک دیگچی میں پانی گرم کریں، جب بھاپ اُٹھنے لگے، تو جیلاٹن کا برتن گرم پانی کے اوپر رکھ کر پکا لیں۔ اب ایک بڑے پیالے میں دہی، کنڈینسڈ مِلک اور جیلی پاؤڈر کانٹے کی مدد سے اچھی طرح پھینٹ لیں۔ پھر اسٹرابیری کیوبز بھی ڈال دیں۔ گھلی ہوئی جیلاٹن اس آمیزے میں شامل کریں اور دوبارہ ہلکا سا پھینٹ کر فریج میں دو سے تین گھنٹے کے لیے رکھ دیں۔ یہ میٹھا جتنا ٹھنڈا ہوگا، اُتنا ہی کھانے میں لطف دے گا ۔