• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے جمعرات کو اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ بھارت میں تعینات ہائی کمشنر سہیل محمود کو اسلام آباد بلا لیا گیا ہے، نئی دہلی میں سفارتی عملے کو بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے ہراساں کئے جانے کے مسلسل واقعات کے بعد ہائی کمشنر کے ساتھ مشاورت کی جائے گی، نئی دہلی نے ہماری شکایات پر کوئی اقدامات نہیں کئے، سفارت کاروں کو ہراساں کرنا ناقابلِ برداشت اور ویانا کنونشن اور عالمی قوانین کے خلاف ہے۔ سفارتکاروں کی حفاظت کے لئے ہر حد تک جائیں گے۔ دفتر خارجہ نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو بھی طلب کر کے نئی دہلی میں سفارتکاروں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر احتجاج کیا۔ یاد رہے کہ چند روز قبل نئی دہلی میں سینئر پاکستانی سفارت کار کی گاڑی کو 40منٹ تک روک کر ان کی تصاویر بنائیں۔ دوسرے واقعے میں پاکستانی سفارت کار کی گاڑی کو روک کر اس میں موجود بچوں کو ہراساں کیا گیا۔ عصر حاضر ہی نہیں، ازمنہ قدیم، جسے ہم دور جہالت گردانتے ہیں، میں بھی سفارتکاروں کا خیال رکھنا ہر ریاست پر لازم تھا، سفارت کار یا ایلچی پر ہاتھ اٹھانا یا اسے ہراساں کرنا سخت معیوب بلکہ باعث ِ ننگ و عار قرار دیا جاتا تھا۔ زمانہ امن ہی کیا حالت جنگ میں بھی سفرا کی جان مال اور عزت و آبرو کی حفاظت یقینی بنانا ریاست کی اہم ترین ذمہ داری تھی مگر افسوس کہ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت اپنی خودساختہ ازلی دشمنی میں سفارت کے دائمی آداب کی دھجیاں اڑانے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کر رہا۔ بھارت کے یہ اوچھے ہتھکنڈے اگرچہ نئے نہیں لیکن یہ سفارت کاری کے عالمی و دائمی قوانین کی سنگین ترین خلاف ورزی ہیں کہ بھارت سفارت کاروں کا تحفظ یقینی بنانے کے بجائے الٹا انہیں ہراساں کر رہا ہے۔ ان حالات میں جبکہ تعلقات پہلے کشیدہ ہیں ایسی باتیں ہونا درست نہیں، جو تھوڑے بہت تعلقات قائم ہیں انہیں تو بحال رہنے دیا جائے کہ بات چیت کی راہ کھلی رہے۔ پاکستان میں اگرچہ دہشت گردی نے ایک عرصہ قیامت ڈھائے رکھی لیکن پاکستان میں تعینات کوئی بھی سفیر خواہ اس کا تعلق کسی ملک سے ہو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے کسی نے ہراساں کیا یا ایسا کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات میں کشیدگی کی بیشتر وجوہات ہیں جن میں کشمیریوں کی ببانگ دہل حمایت اور پاک چین اقتصادی راہداری سرفہرست ہیں۔ پاکستان اور روس کی قربت بھی بھارت، امریکہ اور اسرائیل کے اتحاد ثلاثہ کو کھٹک رہی ہے۔ بھارت کے حالیہ اقدامات جن میں سیز فائر معاہدے کی آئے دن خلاف ورزی کرتے ہوئے کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ بھی شامل ہے دراصل پاکستان کی خطے میں دوستانہ تعلقات بڑھانے کی سعی کا ردعمل ہیں۔ بھارت کو جب سے امریکہ کی اشیر باد حاصل ہوئی ہے اس کا رویہ جارحانہ ہو گیا ہے لہٰذا بھارت کی ان حرکات کی انگیخت اتحاد ثلاثہ کے مشترکہ لائحہ عمل کو قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا تاہم جنوبی ایشیا میں چودھراہٹ کا خواب دیکھنے والے بھارت کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اسے اسی خطے میں رہنا ہے اور خود اس کے اندرونی حالات بھی کچھ ایسے تسلی بخش نہیں کہ وہ ایسا رویہ اختیار کرے، خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی سب سے بڑی تعداد بھارت میں موجود ہے اور غیرمنصفانہ طرز حکمرانی کے باعث وہاں درجن بھر سے زیادہ علیحدگی کی مسلح تحریکیں بھی جاری ہیں، کشمیری بھی بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ ان حالات میں اگر اس نے کوئی الٹی سیدھی حرکت کا ارتکاب کیا تو اسے لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ جن ہتھیاروں کے وہ انبار لگا رہا ہے اسے تباہی سے نہ بچا سکیں گے اور اس کی مدد کو آنے والوں سے اپنا پرانا حساب چکانے والے بھی اس وقت مستعد ہیں۔ دریں حالات بھارت اور خطے کی بہتری اسی میں ہے کہ معاملات کو مل بیٹھ کر حل کیا جائے۔ خطے کے کروڑوں انسانوں کو امن و خوشحالی درکار ہے نہ کہ جنگ اور بدامنی۔ بھارت سفارتی آداب کا خیال رکھے اور پاکستان کو بھی گھٹن زدہ ماحول کے خاتمے کے لئے بھارت کو مذاکرات پر مائل کرنا چاہئے کہ اسی میں خطے کی بھلائی ہے۔

تازہ ترین