• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
, ,

کیا ہماری دنیا خلائی مخلوق کا بنایا ہوا کمپیوٹر پروگرام ہے؟

کیا ہماری دنیا خلائی مخلوق کا بنایا ہوا کمپیوٹر پروگرام ہے؟

آپ نے سنہ 1999ءمیں ریلیز ہونے والی فلم دی میٹرکس تو ضرور دیکھی ہوگی؟

فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ ایک کمپیوٹر پروگرامر نیو پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہ دراصل ایک غیر حقیقی، بناوٹی اور ورچوئل دنیا ہے، جس کے بعد وہ اپنے اوپر حکومت کرنے والی مشینوں کے خلاف جنگ شروع کردیتا ہے۔

تصور کریں کہ اگر یہ فلم حقیقت بن جائے، اور ہماری یہ دنیا جس کی آسائشیں حاصل کرنے کیلئے ہم شب و روز محنت کرتے ہیں، ایک مصنوعی دنیا یا کسی کمپیوٹر کا تخلیق کیا ہوا پروگرام نکل آئے، تو کیا ہوگا؟

یہ خیال نیا نہیں ہے۔ ایک طویل عرصے سے ماہرین نفسیات، ماہرین فلکیات اور سائنس دان اس خیال پر سوچ بچار کر رہے ہیں کہ کیا ہماری یہ دنیا ایک بہت بڑا کمپیوٹر پروگرام تو نہیں جسے ہم غلطی سے حقیقت سمجھتے ہوں۔ایک لمحے کو سوچیں، کافی کی خوشبو، ہاتھ میں اس کے وزن کا دباؤ، غروب آفتاب کا خوبصورت منظر، سمندر کی لہروں کا شور، ٹھنڈی ہوا اور ہمارا کمپیوٹر پر بیٹھ کر دنیا جہاں سے رابطے قائم کرنا۔ کیا یہ سب مصنوعی ہوسکتا ہے؟

لیکن حیرت زدہ ہونے کے بجائے اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ گزشتہ چند دہائیوں میں سائنس اور کمپیوٹر پروگرامنگ نے اس قدر ترقی کی ہے جس کا صرف 1 صدی قبل تک تصور بھی نا ممکن تھا۔

آپ کمپیوٹرز پر کھیلے جانے والے ان گیمز کو بھی تصور میں لائیں جس میں آپ ایک پوری خیالی دنیا تخلیق کرسکتے ہیں۔ آپ اس میں موجود کردار کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر اسے سلاتے ہیں، جگاتے ہیں، کھلاتے اور سیر کرواتے ہیں۔ان سب کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہماری دنیا کے کسی کمپیوٹر پروگرام کا حصہ ہونے کا خیال کچھ زیادہ ناقابل فہم تو نہیں۔ ایسا بہر حال ممکن ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی ایسا ہے تو اس بات کا یقینی طور پر علم کیسے ہوگا؟ اور اگر ہم واقعی ایک مصنوعی دنیا میں جی رہے ہیں تو اس سے ہماری زندگیوں پر کیا فرق پڑے گا؟

ورچوئل یا حقیقی دنیا؟

سنہ 2016 ءمیں امریکا کے میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں دنیا کے حقیقی ہونے کے بارے میں کئی مباحثے منعقد کیے گئے۔ایک مباحثے میں گوگل میں مشین انٹیلی جنس کے ماہر رے کرزویل نے کہا، ’ہوسکتا ہے ہماری ساری کائنات سائنس کا ایک پروجیکٹ ہو جو کسی دوسری کائنات میں رہنے والے چند جونیئر طلبا نے تشکیل دیا ہو‘۔

ماہرین نے خیال پیش کیا کہ ایسا تو نہیں کہ ہم کسی نادیدہ ڈور سے بندھے، کسی کمپیوٹر پروگرام کے زیر اثر، ’کسی اور‘ کے ماتحت ہوں اور ان کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہوں، تاہم اس کا امکان ہوسکتا ہے کہ ہمارے ارد گرد جو ساری دنیا قائم ہے، یہ ایک مصنوعی یا ورچوئل دنیا ہو۔

میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر ایلن گوتھ کا کہنا ہے، ’ہوسکتا ہے ہماری کائنات واقعی اصل ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ایک سائنس لیبارٹری ہو جسے کچھ غیر معمولی ذہانت کے حامل ذہنوں نے تخلیق کیا ہو۔ ایسے ہی جیسے ہم بمیں سے کوئی ماہر حیاتیات کسی تجربے کے لیے، ننھے منے اجسام کی کوئی کالونی بساتا ہے‘۔

ایلن گوتھ کے مطابق ایسا یقیناً ممکن ہے کہ وہ وسیع و عریض پھیلاؤ (بگ بینگ) جس نے لمحے میں ہماری کائنات تشکیل دے دی، مصنوعی طور پر تخلیق کیا جائے جس کیلئے اصل مادہ اور توانائی استعمال کی گئی ہو۔

لاحاصل بحث؟

دنیا کے حقیقی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں مزید مختلف نظریات پیش کیے گئے۔

ایک نظریے کے مطابق ہم کسی اور مخلوق کی ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے پیدا کردہ دنیا بھی ہوسکتے ہیں، تاہم ایسی صورت میں ہماری دنیا اور ہمارا وجود اتنا ہی حقیقی ہے جتنا قدرتی طریقے سے وجود میں آںے والی کوئی دنیا۔

ماہرین کا ایک اور خیال ہے کہ مصنوعی بگ بینگ کے نظریے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دنیا کو اسی طرح سے ختم کرنا تو ممکن نہیں جیسے اسے تخلیق کیا گیا، البتہ ہماری لاعلمی میں ہماری ہی دنیا سے ایک اور دنیا تخلیق کی جانا ممکن ہے جس کا پورا نظام اور وقت بالکل مختلف ہوگا۔

ان کے مطابق یہ دنیا کچھ عرصے بعد ہماری دنیا سے علیحدہ ہوجائے گی جس کے بعد دونوں دنیاؤں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوگا اور نئی دنیا خود کار طریقے سے کام کرے گی۔

انسانی ذہانت یا کمپیوٹر پروگرام؟

سائنسدانوں نے ایک یہ نظریہ بھی پیش کیا کہ ممکن ہے ہم انسانوں کی ذہانت اس کمپیوٹر پروگرام کی مرہون منت ہو جو ہمارے دماغوں میں ہماری تخلیق سے قبل محفوظ کردیا گیا ہو۔ ہمارا دیکھنا، سننا، چھونا، محسوس کرنا سب کچھ ایک کمپیوٹر پروگرام کے تحت خود کار طریقے سے انجام پا رہا ہو۔

تاہم اگر واقعی ایسا ہے تو پھر سائنسدان نا امید ہیں کہ میٹرکس فلم کے برعکس ہمارے لیے کوئی دوسری جائے پناہ نہیں۔ ہمیں ہر حال میں اسی پروگرام کا ماتحت ہو کر جینا ہے اور جیتے رہنا ہے۔

نقلی دنیا بنانا ممکن ہے؟

لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کے نقلی ہونے کے اس نظریے پر آخر کیوں یقین کیا جائے؟

اس سوال کا ممکنہ جواب حاصل کرنے کیلئے ہم ذرا اپنی آس پاس کی سائنسی ترقی پر نظر ڈالتے ہیں۔

جیسے جیسے سائنس و ٹیکنالوجی آگے بڑھ رہی ہے، ہمارے لیے چیزوں کی نقل تیار کرنا کوئی مشکل بات نہیں رہی۔

سائنسدانوں کا کسی جاندار کی نقل تیار کرنا دراصل تحقیقی مقصد کیلئے ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ جان سکتے ہیں کہ کوئی مرض یا کوئی تجربہ اس جاندار پر کس طرح سے اثر انداز ہوگا۔کسی خاص قسم کے ماحول کے بارے میں جاننے کیلئے ہم بالکل اسی طرز کا مصنوعی ماحول بھی تشکیل دینے کے قابل ہوگئے ہیں۔

اگر ہم سائنس کی ترقی کے اس عروج پر پہنچ سکتے ہیں، تو پھر یقیناً یہ بھی ممکن ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات میں کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہم سے بھی کہیں آگے ہو۔ ان کیلئے بھی ایسی نقول تیار کرنا چنداں مشکل نہیں۔

دنیا حقیقت ہے ۔ ایک امید

نوبل انعام یافتہ فلکی طبیعات کے ماہر پروفیسر جارج اسموٹ ان تمام نظریات کی کسی حد تک نفی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے، ’کوئی انجانی مخلوق آخر ایسا کون سا تجربہ کر رہی ہے جس کیلئے اسے اس قدر مفصل مصنوعی دنیا تخلیق کرنے کی ضرورت آن پڑی؟ ایسی دنیا میں جس میں ذرا ذرا سی باریکیوں کا بے حد خیال رکھا گیا ہو‘۔وہ کہتے ہیں، ’یہ اخلاقی طور پر بھی نہایت غلط فعل ہے کہ کوئی مخلوق، ایسے جاندار تخلیق کر ڈالے جو صدیوں تک اس دھوکے میں رہیں کہ وہ اور ان کی دنیا ایک حقیقت ہے‘۔انہوں نے کہا کہ اس وقت نسل انسانی بے شمار مسائل سے نبرد آزما ہے جیسے جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ، موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج، اور کسی (جانور کی) نسل کا خاتمہ۔ ’اگر یہ سب ایک کمپیوٹر پروگرام ہے تو اسے ایک کلک کے ساتھ درست کیوں نہیں کردیا جاتا‘؟

اگر ان تمام نظریات کو دیکھا جائے تو تاحال ان سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے۔ یہ کہنا فی الحال ناممکن ہے کہ کیا واقعی ہم کسی مصنوعی طور پر تخلیق کردہ دنیا میں جی رہے ہیں، یا یہ سب کچھ قدرتی ہے۔اس بات کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے۔

کائنات کے بارے میں حیران کن حقائق

ہماری ماں زمین جہاں ہم رہتے اور زندگی گزارتے ہیں، ہماری کائنات کا پانچواں بڑا سیارہ ہے، اور شاید یہ واحد سیارہ ہے جہاں پر زندگی موجود ہے۔

زمین ہمارے لیے بہت بڑی ہے، لیکن ہم کائنات کی وسعت کا اندازہ لگانے سے بھی قاصر ہیں۔ اس وسعت میں ہماری زمین کی حیثیت ایک معمولی سے ریت کے ذرے کے برابر ہے۔آج ہم آپ کو کائنات کے ایسے ہی چند حیران کن حقائق بتا رہے ہیں جنہیں جان کر آپ خود کو نہایت حقیر محسوس کرنے لگیں گے، اور ساتھ ہی دنگ بھی رہ جائیں گے۔کائنات میں لگ بھگ 100 ارب ستارے اور سیارے موجود ہیں اور ہماری زمین ان میں سے ایک ہے۔

اگر ہم روشنی کی رفتار سے سفر کریں تب بھی ہمیں پوری کہکشاں کی سیر کرنے کیلئے 1 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ یاد رہے کہ روشنی کی رفتار 1 لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ ہوتی ہے۔کائنات کا 70 فیصد حصہ اندھیرے میں چھپا ہوا ہے۔ زمین سے باہر جو کچھ ہم اب تک دریافت کر چکے ہیں وہ کائنات کا صرف 5 فیصد حصہ ہے۔

ہماری خلا کا زیادہ تر حجم سورج نے گھیرا ہوا ہے۔ سورج کے علاوہ بقیہ تمام سیارے کائنات کا صرف 0.2 فیصد رقبہ گھیرے ہوئے ہیں۔ووئیجر 1 اس وقت انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی وہ واحد شے ہے جو زمین سے سب سے زیادہ فاصلے پر موجود ہے۔ یہ سورج سے 11 ارب میل کے فاصلے پر ہے جبکہ خود زمین سورج سے 14.96 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل ماہرین فلکیات نے خلا میں زمین جیسے 7 سیارے دریافت کیے تھے۔ایک ستارے اور اس کے گرد گھومتے 7 سیاروں پر مشتمل اس نئے نظام کو ٹریپسٹ 1 کا نام دیا گیا تھا۔سائنس دانوں کے مطابق ان سیاروں میں سے 3 پر پانی کی موجودگی کا امکان ہے جن کے باعث یہ سیارے قابل رہائش ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین
تازہ ترین