• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’’اسٹیفن ہاکنگ ‘‘ سائنس کی دنیا کے جگمگاتے ستارے کو موت کا بلیک ہول نگل گیا

’’اسٹیفن ہاکنگ ‘‘ سائنس کی دنیا کے جگمگاتے ستارے کو موت کا بلیک ہول نگل گیا

بر طانیہ کے شہر آکسفورڈ میں 8 جنوری 1942 ء کو پیدا ہونے والے عظیم ماہر فلکیات ،طبیعیات اور ریاضی دان’’اسٹیفن ہاکنگ ‘‘ کا شمار ایسے سائنس دانوں میں ہوتا تھا جو نہ صر ف کائنات کی سیر کراتے بلکہ ایسی معلومات فراہم کرتے تھے ،جنہیں جان کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی تھی ۔ وہ اپنے عہد شباب ہی میں ممتاز ہو گئےتھے ۔ان کا تعلق بہت غریب گھرانے سے تھا۔

 والدین کے پاس ا سکول کی فیس اداکرنے تک کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ہاکنگ کے والد طب کے شعبے سے وابستہ تھے ،لیکن وہ ریاضی داں بننا چاہتے تھے۔ان کے والد نے ان پر علم طب حاصل کرنے کے لئے زور ڈالا، مگر انہوں نے کیمیا اورطبیعیات کا علم حاصل کرنے کا سفر جاری رکھا۔ انہیںا سکول میں طلبا ’’آئن سٹائن‘‘ کہہ کر چھیڑتے تھے مگر اس وقت کسے معلوم تھا کہ وہ واقعی ایک دن آئن اسٹائن ثابت ہوںگے۔ انہیں آئن ا سٹائن کے بعد دنیا کا دوسرا مشہور ترین اور اہم سائنس داں ہونےکا ا عز ا ز حاصل ہوا۔

ہاکنگ کوئی ذہین طالب علم نہیں تھے اور نہ وہ اپنی تعلیم پر کوئی خاص توجہ دیتے تھے ۔اس کے باوجود وہ آکسفورڈ سے سند حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ 1963ء میں وہ موٹر نیورون (Motor neuron disease)جیسی خطر ناک بیماری کا شکار ہوگئے ،جس کی وجہ سے ان کے اعضا کی حرکت اور قوت گویائی کافی متاثر ہوگئی تھی۔ لیکن وہ دماغی طور پر مکمل صحت مند تھے ۔

 بعد میںاس بیماری نے انہیں آہستہ آہستہ مفلوج ومعذور بنا کر وہیل چیئر تک محدود کردیاتھا۔آخری پچیس تیس برسوں میںان کے پورے جسم میں صرف پلکوں میں زندگی موجود تھی۔وہ صرف پلکیں جھپکا سکتے تھے۔پھر بھی اس شخص نے ہمت نہیں ہاری بلکہ عزم و ہمت کی روشن مثال بن کر سائنس کے میدان میںانقلاب بر پا کیا ۔وہیل چیئر پر بیٹھ کر سائنس کی اُلجھی ہوئی گتھیوں کے راز جاننے کی کوشش کی ،جس سےسائنسی دنیا حیران رہ گئی ۔

ا ن کا زیادہ تر کام کائنات کے اسرارو رموز ،وقت اور بلیک ہولز سے متعلق نظریات پر ہے ۔انہوں نے ریا ضیاتی طبیعیات کی سرحدوں کودریافت کیا ۔

’’اسٹیفن ہاکنگ ‘‘ سائنس کی دنیا کے جگمگاتے ستارے کو موت کا بلیک ہول نگل گیا

ہاکنگ نے ورم ہول (سیاح سر نگ ) کے سر بستہ رازوں سے پردہ اُٹھا یا ،اس کی بنیادپر انہوں نے ’’ہاکنگ تاب کاری ‘‘ کی پیش گوئی کی۔ کیمبرج یونیورسٹی کے کمپیوٹرکے شعبے کے ماہرین نے ان کے لیے ’’ٹاکنگ ‘‘ کمپیوٹر تیا ر کیاتھا ۔یہ کمپیوٹر ان کی وہیل چیئرپرنصب تھا ۔ اس میں ان کی پلکوں کی زبان سمجھنے کی صلاحیت موجود تھی ۔زندگی کے ان مشکل ترین دنوں میں انہوں نے بہت حوصلے اورہمت سے کام لیا ۔ہاکنگ نے جس مشکل کا م کا انتخاب کیا وہ آئن اسٹائن کے نظر یہ اضافیت پر غور کرنا تھا ۔

اس کے رازجانتے جانتے وہ کائنات میں موجودبلیک ہو لزسے اُلجھ بیٹھے۔ 1966 ء میں کیمبرج یونیورسٹی نے ہا کنگ کو ان کے مشہور مقالے ’’پراپرٹیز آف ایکسپینڈنگ یونیورسز‘‘پر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا۔ اسٹیفن ہاکنگ نے تقریباً 4 سال تک آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت پر تحقیق کر نے کے بعدیہ ثابت کیا کہ اگر نظریہ اضافت کے قوانین کائنات پر لاگو ہوتے ہیں تو یقینی طور پر کائنات کا آغاز ایک نقطے (singularity) سے ہواہوگا،کیوں کہ بلیک ہول میں بھی singularity موجود ہوتی ہے۔ بعدازاں ہاکنگ کی تحقیق کا رخ بلیک ہول کی جانب ہوگیا اور بلیک ہول کے متعلق کافی چشم کشا انکشافات کیے جنہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔

ہاکنگ کی پہلی کتابThe Large scale structure of Space Time 1973 میں شائع ہوئی۔ 1988 ء میں ان کی تصنیف ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم ‘‘ شائع ہوئی ،جس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچادیا۔اس کی وجہ سے انہیں پوری دنیا میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔اس کتاب کی خاص بات یہ تھی کہ یہ انتہائی عام فہم زبان میںتھی اور اس نے سائنسی کتابوں کی دنیا میں شہر ت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ۔اس کتاب میں انہوں نےبنیادی طبیعیات کی پیچیدہ دنیا کو آسان پیرائے میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔

بعدازاں 2006 ء میں انہوں نے اکیسویں صدی کی ابتداء تک کو نیا ت ( کوسمولوجی ) کے دقیق شعبوں میں ہونے والی تحقیق کو ایک بار پھر انتہائی آسان فہم انداز میں پیش کیا، جسے بلا شبہ ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ کا دوسرا حصہ قرار دیا جاتاہے۔

گزشتہ برس برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے اسٹیفن ہاکنگ کے 1966ء میں پیش کیا گیا پی ایچ ڈی کا مقالہ جاری کیا ،جس نے چند ہی روزمیں مطالعے کا ریکارڈ توڑ دیا ۔علاوہ ازیں ہاکنگ نے ایک چیلنج دنیائے طبیعیات کو بھی دیا ۔انہوں نے ٹائم ٹریول سے رو کنے کے لیے قوانین طبیعیات کی روشنی میں ایک نظر یہ ’’تحفظ تقویم ‘‘ بھی پیش کیا تھا۔بلیک ہول اور ٹائم مشین پر تحقیق کرکے اسٹیفن ہاکنگ نے دنیا بھر میں اعلٰی مقام حاصل کیا۔

30سال کی انتھک محنت کے بعد بالآخر1974 ء میں وہ یہ ثابت کرنے میں کام یاب ہو گئے کہ بلیک ہول مکمل طور پر بلیک نہیں ہیں،بلکہ وہ بہ تد ریج شعاعوں کا اخراج کررہے ہیں ،کیوں کہ شعاعیں بلیک ہول کے ثقلی میدان سے بھی گزر کر نکل سکتی ہیں ،جس کو اب’’ ہاکنگ کی شعاعیں‘‘ کہا جا تا ہے ۔ اس مقالے نے پہلی دفعہ کوانٹم نظریے کے عملی اظہار کو نظر یہ اضافیت پر برتری حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا اور یہ ان کا سب سے شاندار کام ہے ۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مستقبل میں انسان سیارہ زمین کو چھوڑ کر نظام شمسی یا دیگر سیاروں کو رہائش کے لیے تلاش کرنا شروع کردے گا،لہٰذا انسانوں کو چاہیے کہ وہ سیارہ زمین کو چھوڑ کر کسی اور سیارے پر آباد ہونے کے لیےابھی سے منصوبہ بند ی شروع کردے۔

انہوں نے اپنے ایک انٹر یو میں اس بات سے خبر دار کیا تھا کہ جدید ایجادات،جوہری جنگ ،عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور مصنوعی ذہانت انسانی بقا کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں ۔ ہاکنگ نے 2010ء میں کہا تھا کہ اگر کائنات کے کسی گوشے میں کوئی ذہین مخلوق موجود ہے تو وہ انسان دوست نہیں ہوسکتی۔ اگر کوئی خلائی مخلوق ہماری زمین پر آئی تو کرسٹوفر کولمبس جیسا معاملہ ہوگا۔

ان کا خیال تھا کہ خلائی مخلوق کی آمد کسی حملہ آور کی طرح ہوگی جو علاقے فتح کرنے اور انسانوں کو غلام بنانے کے ساتھ ہمارے وسائل پر بھی قابض ہوجائےگی۔ اس لیے خلائی مخلوق کو زمین کی طرف بلانے اور راغب کرنے کی تمام تر کوششیں الٹا انسانیت کے خلاف جائیں گی،چناں چہ ایسی کوششیں مناسب عمل نہیں۔

وہ 1979سے 2009تک کیمبرج یو نیورسٹی کے اُس عہدے پر فائز رہے،جس پر کبھی مشہور سائنس داں آئزک نیوٹن فائز تھے۔ انہیںدور حاضر کا افلاطون بھی کہاجاتا تھا۔اسٹیفن ہاکنگ نے آکسفورڈ یونین ڈیبیٹنگ سوسائٹی میں ایک لیکچر کے دوران انکشاف کیاتھا کہ دُنیا میں انسانوں کے محض ایک ہزار سال باقی رہ گئے ہیں،جس کے بعد خطۂ ارض سے نسل انسانی ختم ہو جائے گی اور انسانوں کو اپنی بقا کے لیے کسی دوسرے سیارے پر نقل مکانی کرنا ہوگی۔

ہمیں زمین کے مدار سے نکل کر چاند یا کسی اور سیارے پر منتقل ہونا ہوگا۔ اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس دیگر سیاروں پر جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اُن کی تحقیق کے حساب سے انسانوں کو زمین چھوڑ دینی چاہیے۔ یہ سیارہ اب ا نسانو ں کے لیے بہت چھوٹا ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق ہمارے پاس جگہ ختم ہو رہی ہے اور اب رہنے کے لیے دیگر سیارے ہی بچے ہیں، کیوں کہ زمین جلد ہی کسی تباہ کن سیارچے سے ٹکراجائے گی۔

اسٹیفن ہاکنگ نے اس قدر عالمی شہرت حاصل کی تھی کہ اُن کے پی ایچ ڈی کےمقالے کی آن لائن اشاعت کے کچھ ہی دیر بعد اُس کی مقبولیت کی وجہ سے کیمبرج یونیورسٹی کی ویب سائٹ کریش (Crash)ہوگئی تھی۔ مقالے کی اشاعت کے کچھ ہی گھنٹوں کے اندر60 ہزار سے زیادہ لوگوں نے اس سائٹ کا دورہ کیاتھا۔وہ اپنی تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارے ارد گرد صرف ایک کائنات نہیں بلکہ بہت سی کائناتیں موجود ہیں۔

ہم Universeمیں نہیں بلکہ Multiverseمیں رہتے ہیں۔ یہ کائنات پانی کے بلبلوں کی طرح پیدا ہوتی ہیں ۔ان میں سے بعض کی عمر مختصر اور بعض کی طویل ہےجو ہماری کائنات کی طرح بڑ ھتی اور پھیلتی ہیں اور اُن میں سورج چاند ستارے بنتے ہیں۔ آخر ایک دن وہ کائنات پھیلنے کے بجائے سکڑنا شروع کر دیتی ہے اور سکڑتے سکڑتے کسی بلیک ہول میں مر جاتی ہے۔

اسٹیفن ہاکنگ نے اتنی خطر ناک بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود سائنس کی دنیا میں اپنانام روشن کیا۔ ان کا نام ہمیشہ دنیا کے ذہین ترین سائنس دانوں کی فہرست میں شامل رہے گا ۔

سائنسی تھیوری: دنیا جہنم بن جائے گی

گزشتہ برس اسٹیفن ہاکنگ نے بیجنگ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایک کانفرنس ’’ٹینسنٹ ڈبلیو ای سمّٹ‘‘ سے ویڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ دنیا آئندہ 600 سال میں اس قدر گرم ہوجائے گی کہ یہاں صرف انسان ہی نہیں بلکہ زندگی کی کسی بھی صورت کا زندہ رہنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔ 

انہوں نے کہاتھا کہ انسانوں کو چاہیے کہ اس سے پہلے وہ سیارہ زمین کو چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہونے کی تیاری کرلیں۔ اسٹیفن ہاکنگ کے مطابق دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی انسانی آبادی، توانائی کی طلب اور پیداوار میں مسلسل اضافے سے آلودگی بھی حد سے زیادہ بڑھ جائے گی جو بالآخر دنیا کی تباہی کی وجہ بنے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین سے دوسرے سب سے قریب ترین ستارے الفا سینٹوری کے کسی سیارے پرہماری دنیا کے لوگوں کورہائش کے لیے موزوں ماحول میسر آسکتا ہے۔

 اعزازات

٭ ایڈم پرائز (1966)

٭ فیلو آف رائل سوسائٹی (1974)

٭ ایڈنگٹن میڈل (1975)

٭ ہیوز1976)Hughes

٭ میکس ویل میڈل اینڈ پرائز (1976)

٭ البرٹ آئن اسٹائن ایوراڈ(1978)

٭ گولڈ میڈل آف دی رائل

آسٹرونومیکل سوسائٹی (آر اے ایس 1985)

٭ آرڈر آف دی کمپینیز آف آنر (1989)

٭ لی لین فیلڈ ایوارڈ (1999)

٭ صدارتی میڈل آف فریڈم (2009)

٭ فنڈا مینٹل فزکس پرائز (2012)

 تصانیف

٭ دی لارج اسکیل اسٹر کچر آف اسپیس ٹائم (1973)

٭ جنرل ریلٹیویٹی،این آئن اسٹائن سینٹینیری سر وے (1979)

٭ بلیک ہول اینڈ بے بی یونیورسزاینڈ دی اورایسیز(1993)

٭ کمپیوٹر ریسورسز فار پیپل ودڈس ایبیلیٹز(1994)

٭ دی نیچر آف اسپیس اینڈ ٹائم (1996)

٭ اے بر یف ہسٹری آف ٹائم (2006)

٭ دی تھیوری آف ایوری تھنگ (2010)

٭ مائی بریف ہسٹری (2013)

تازہ ترین
تازہ ترین