ٹی وی کے فنکاروں کا ہر دور میں طوطی بولتا رہا ہے۔ ٹی وی فنکاروںنے فلم انڈسٹری میںاپنی صلاحیتوںکالوہا منوانے کے لئے قدم رکھا تو ان کوسراہا گیا لیکن کچھ فنکار اپنی صلاحیتوںکا اعتراف نہ کروا سکے۔ تاہم مجموعی طور پر اگر یہ کہا جائے کہ ٹی وی فنکار فلم انڈسٹری پر اپنا جادو جگانے میںکامیاب رہے تو بے جا نہ ہوگا۔ فلم کو جملہ، فنون لطیفہ، آرٹ ،ٹیکنالوجی اور تجارتی تقاضوں کا مجموعہ قراردیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا میڈیم ہے جس کے ذریعے تفریح ،تعلیم ،معاشرتی ،سیاسی اور نظریاتی پہلوؤں اور مسائل کی موثر انداز سے عکاسی کی جاسکتی ہے۔ دنیا بھر میں فلمسازی میں ارتقا کا سفر جاری ہے۔ فلمسازی کے حوالے سے جدید تصورات، جدت اور نئی ٹیکنالوجی نے فلم کی تاریخ گویا بدل کر رکھ دی ہے۔ کہاں ایک زمانے میں خطیر بجٹ کے ساتھ بڑے بڑے سیٹ لگائے جاتے تھے اور اب تھری ڈی اینیمیشن کی بدولت گویا سارا منظر نامہ ہی بدل گیا ہے۔
لیجنڈ قرار دیئے جانے والے ٹی وی اداکار قوی خان1964 میں ٹی وی کا حصہ بنے اور پہلے ڈرامے ’’نذرانہ‘‘ میں مرکزی کردار میں نظر آئے اور اگلے سال فلموں میں نظر آنے لگے۔
الف نون کے اداکار رفیع خاور ننھاکوشباب کیرانوی کی فلم’’وطن کاسپاہی‘‘ میںکام کا موقع ملا۔ معرو ف مزاحیہ اداکار ننھا کا اصل نام رفیع خاور تھا۔ انہوں نے کیریئر کاآغاز تھیٹر سے کیا، تاہم انہیں شہرت ٹی وی پروگرام الف نون سے ملی۔ انہوں نے فلمی کیریئر کاآغاز شباب کیرانوی کی 1966میں ریلیزہونے والی فلم وطن کاسپاہی میں ثانوی کردار سے کیا۔1976میں ریلیز ہونے والی فلم نوکرسے انہیں پہچان ملی جس کے بعد انہیں فلموں میں ہیروکے کرداروں میں کاسٹ کیاجانے لگا۔ فلم ٹکاپہلوان ان کی بطورہیروپہلی فلم تھی اور دبئی چلوکی کامیابی نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچادیا۔ اداکارعلی اعجاز کے ساتھ ان کی جوڑی بہت مقبول ہوئی اوردونوں فنکاروں نے کئی برس تک فلم انڈسٹری پر حکمرانی کی۔ ننھا نے متعد د فلموں میں ہیروکے کردار نبھائے۔ ان کی مشہورفلموں میں سالا صاحب ،سونا چاندی، چوڑیاں ،سوہرا تے جوائی ،دوستانہ اور نوکرتے مالک شامل ہیں۔
علی اعجاز پاکستانی فلموں میں سب سے مزاحیہ شخص تھے۔ وہ ایک مرحلے اداکار تھے اور انہیں1961 میں فلم انسانیت میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس دور میں 1979 میں سپر ہٹ سماجی فلم دبئی چلو کے ساتھ شروع ہوا۔ اداکار ننھا کے ساتھ ان کی جوڑی1980 کے دہائی میں باکس آفس پرہٹ ہوئی۔
طارق عزیز ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کے علاوہ فلموں میں بھی اداکاری کی۔ ان کی سب سے پہلی فلم انسانیت (1967 ) تھی اور ان کی دیگر مشہور فلموں میں سالگرہ، قسم اس وقت کی، کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں، ہار گیا انسان قابل ذکر ہیں۔ انہیں ان کی فنی خدمات پر بہت سے ایوارڈ مل چکے ہیں اور حکومت پاکستان کی طرف سے 1992ء میں حسن کارکردگی کے تمغے سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور1997 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
اداکارمسعود اختر نے انیس سو ساٹھ کی دہائی میں فن کارانہ زندگی کا آغاز کیا اور جلد ہی سٹیج کے مشہور اداکاروں میں شمار ہونے لگے۔ 1968میں ان کوفلم’’سنگدل‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ۔حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2005 کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
پاکستان کے معروف فن کار منور سعید کاٹی وی پر پہلا ڈرامہ ’’مجرم‘‘ تھا جسے زمان علی خان نے پروڈیوس کیا تھا۔ انیس سو ستر میں لاہور سے فلم کی آفر ہوئی، لقمان اور باری ملک کی پنجابی فلم ’’ماں دا لال‘‘ ان کی پہلی فلم تھی جس کے ڈائریکٹر ایم جے رانا تھے، لاہور منتقل ہونے کے بعد انہوں نے چاروں میڈیمز میں کام کیا جس میں فلم ، ٹی وی ، ریڈیو اور سٹیج شامل ہیں۔
سکندر شاہین، آصف رضامیر،عارفہ صدیقی، بہروز سبزواری، اظہار قاضی، ریمبو، نرما، جاوید شیخ، سلیم شیخ، اسماعیل تارا، زیبا شہناز،عتیقہ اوڈھو اور دیگر نے بھی ٹی وی اور فلم پر اپنا جادو جگایا۔
لالی وڈ کی مشہور و معروف اداکارہ بابرہ شریف نے ٹی وی ڈراموں سے اداکاری کا آغاز70 کی دہائی میں کیا۔ بہترین اداکاری پر انہیں فلموں میں کام کرنے کی پیشکش ہوئی۔ ان کی پہلی فلم’’ انتظار‘‘ تھی جس نے شاندار بزنس کیا۔ اس کے بعد بابرہ شریف کو یکے بعد دیگرے فلمیں ملنے لگیں۔ ان کی سبھی فلمیں کامیاب رہیںتاہم بابرہ شریف کی اصل وجہ شہرت ان کی فلم ’’میرانام ہے محبت‘‘ بنی۔ انہوں نے شاہد، محمد علی، وحید مراد اور ندیم جیسے مشہور اداکاروں کیساتھ کام کیا۔ بابرہ شریف کی اداکاری کے چرچے آج بھی ہیں۔ ماضی کی فلموں میں شاندار اداکاری پر انہیں کئی بڑے ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔ بابرہ شریف پاکستان فلم انڈسٹری سمیت شوبز کا ایک بڑا نام ہیں۔ وہ اپنے منفرد انداز کے باعث آج بھی شہرت رکھتی ہیں۔
یہ درست ہے کہ اب پاکستان میں روایتی پابندیاں تقریباًختم ہوچکی ہے۔ایک ایسی نوجوان نسل وجودمیں آئی ہے جواپنی روایات کوسینے سے لگاکررکھتی ہے۔ مگر ہر طریقہ سے جدیدترین رویوں کی حامل بھی ہے۔ فلم بینی ان میں سے ایک مہذب رویہ ہے۔ کسی کونقصان پہنچائے بغیردوگھنٹے کے لیے کم ازکم انسان خوش توہوجاتاہے۔ ہماری فلم انڈسٹری ابھی تک پیروں پرکھڑی نہیں ہوسکی، اگر پاکستان صرف بین الاقوامی سطح کی فلمیں بناکربرآمد کرنا شروع کردے توہماراقومی خزانہ ڈالروں سے لبریز ہوسکتا ہے۔ امریکہ اورانڈیاکی اقتصادی ترقی میں ان کی فلم انڈسٹری کابہت بڑا ہاتھ ہے۔ ہمارے چند مایہ ناز ڈائریکٹرہروقت شکوہ کرتے نظرآتے ہیں کہ اس شعبہ میں سرمایہ کاری نہیں ہورہی۔ یہ بات جزوی طورپردرست ہے۔ ایسے بہت سے سرمایہ کارہیں جونیک نیتی سے فلم بنانے گئے مگرڈائریکٹرصاحبان نے ان کے سرمایہ کواس طرح برباد کیاکہ وہ فلم پروڈکشن سے الگ ہوگئے۔ آجکل بننے والی فلموں میں اداکار ہمایوں سعید، ماہرہ خان، ارمینا خان، حمزہ عباسی، مہوش حیات، نیلم منیر، متیرا، دانش تیمور، فہد مصطفی، سوہائے علی آبڑو، شمعون عباسی، سجل علی، فواد خان، عروہ حسین، ماورا حسین اورحمائمہ ملک شائقین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ان ستاروں نے بلاشبہ ٹی وی سیریلز میں اپنی عمدہ اداکاری سے ناصرف پاکستان بلکہ ہمارے پڑوسی ملک کے باسیوں کوبھی اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی سے بننے والی فلموں کو وہ رسپانس مل رہا ہے، جس کی ہم توقع کرتے ہیں یا جوخبریں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جارہی ہیں۔ ویسے تواکثرنوجوان پاکستانی فلمساز، فنکار، موسیقار اور تکنیک کاریہ دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم بہت جلد انٹرنیشنل مارکیٹ تک پہنچ جائیں گے اوراپنی فلموں کی بدولت پاکستان کا سافٹ امیج دنیابھرمیں متعارف کروائینگے۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی جانب سے ہمیں بدنام کئے جانے کے سلسلے کوروکتے ہوئے اصل حقائق کودنیا کے سامنے لائینگے۔ یہ سب کے سب خیالات بہت مثبت ہیں اوراس سلسلہ میں پوری قوم فلمسازی کے شعبے سے وابستہ افراد کے ساتھ کھڑی ہے۔ مگریہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈراموں میں مرکزی کردارنبھانے والے فنکاروں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ فلم نگری پرراج کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دلوں پرراج کرسکیں؟ اگرہم بات کریں کہ بھارت کی تووہاں فلم اورٹی وی کے ستاروں کی پسندیدگی میں زمین و آسمان کا فرق رہا ہے۔ یہی فرق پاکستان میں بھی ہمیشہ سے صاف دکھائی دیا ہے۔ اگرآج بھی فلمی اداکار کسی تقریب میں ہوتے ہیں وہ ٹی وی فنکاروں کی بجائے مرکز نگاہ ہوتے ہیںاور ٹی وی فنکاروںکو کم رسپانس ملتا ہے،اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ ٹی وی پرکام کرنے والے فنکاروں کو پسند نہیں کیا جاتا یا ان کے چاہنے والے کم ہیں۔ لیکن یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دنیا بھرمیں فلمسٹارز کوجومقام حاصل ہوتا ہے، وہ فنون لطیفہ کے دیگر تمام شعبوں سے وابستہ فنکاروں کے پاس نہیں ہوتا۔ اسی لئے جوفنکار آج پاکستان فلم انڈسٹری میں بننے والی فلموں میں مرکزی کردارنبھارہے ہیں، ان کیلئے یہ بات کسی بھی بڑے چیلنج سے کم نہ ہوگی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ پچھلے آٹھ نو سال سے ایک نیا سنیما کلچرکا احیا ہوا ہے جو کہ ایک صحت مند رجحا ن کا عکاس ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملٹی پلیکسز ناظرین کیلئے پاکستانی فلموں کے مقابلے میں انڈین اور انگلش فلمیں زیادہ کشش کا سبب بنتی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ٹی وی کے نئے ٹیلنٹ سے بھرپور فائدہ اٹھایاجائے اور ساٹھ ستر کی سنہری دہائیوں کی طرح اردو فلم ایک بار پھر اپنے فلم بینوں کی امیدوں پر کھری اترے اور ان کو تفریح فراہم کرنے کی ذ مہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل بنے۔