خواجہ حسن نظامی
جب دہلی ہندوستان کا دل ہوا کرتی تھی، لال قلعہ پر تیموریوں کا آخری نشان لہرا رہا تھا۔ مرزا سلیم بہادر ( ابو ظفر بہادر شاہ )کے بھائی مردانہ حصے میں بیٹھے، دوستوں سے بے تکلفانہ باتیں کررہے تھے کہ اتنے میں زنان خانے سے ایک لونڈی باہر آئی اور ادب سے عرض کیا کہ، حضور بیگم صاحبہ یاد فرماتی ہیں۔ مرزا سلیم فوراً محل میں چلے گئے اور تھوڑی دیر میں مغموم واپس آئے۔ ایک بے تکلف دوست نےپوچھا،’’خیرباشد، مزاج عالی مکدر پاتا ہوں‘‘ ۔مرزا نے مسکرا کر جواب دیا۔ ’’نہیں کچھ نہیں، بعض اوقات اماں حضرت خواہ مخواہ ناراض ہوجاتی ہیں، کل شام کو افطاری کے وقت نتھن خان گا رہا تھا اور میرا دل بہلا رہا تھا، اس وقت اماں حضرت قرآن شریف پڑھ رہی تھیں، ان کو یہ شور و غل ناگوار معلوم ہوا۔ آج ارشاد ہوا ہے کہ رمضان میں گانے بجانے کی محفلیں بند کردی جائیں، بھلا میں اس تفریحی عادت کو کیو ںکر چھوڑ سکتا ہوں، ادب کوملحوظ خاطر رکھ کر قبول تو کرلیا، مگر اس پابندی سے جی الجھتا ہے، حیران ہوں کہ یہ سولہ دن کیسے بسر ہوں گے‘‘۔
مصاحب نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا ’’حضور یہ بھی کوئی پریشان ہونے کی بات ہے، شام کو افطاری سے پہلے جامع مسجد تشریف لے جایا کیجئے۔ عجب بہار ہوتی ہے،آدمیوں کے کےجھنگٹے دیکھنے میں آئیں گے۔ خدا کے دن ہے۔ خدا والوں کی بہار بھی دیکھئے‘‘۔
مرزا نے اس صلاح کو پسند کیا اور دوسرے دن مصاحبوں کو لے کر جامع مسجد جا پہنچے۔ وہاں جاکر عجب عالم دیکھا، جگہ جگہ حلقہ بنائے لوگ بیٹھے ہیں، کہیں قرآن شریف کے ورد ہورہے ہیں حافظ آپس میں ایک دوسرے کو قرآن سنا رہے ہیں، کہیں مسائل دین پر گفتگو ہورہی ہے۔ دو عالم کسی فقہی مسئلہ پر بحث کرتے ہیں اور بیسیوں آدمی بیٹھے مزے سے سن رہے ہیں، کسی جگہ توجہ اور مراقبہ کا حلقہ ہے، کہیں کوئی صاحب وظائف میں مشغول ہیں، الغرض مسجد میں چاروں طرف اللہ والوں کا ہجوم ہے۔
مرزا کو یہ نظارہ نہایت پسند آیا اور وقت بہت لطف سے کٹ گیا۔ اتنے میں افطار کا وقت قریب آیا، سیکڑوں خوان افطاری کے آنے لگے اورلوگوں میں افطاریاں تقسیم ہونے لگیں۔ خاص محل سلطانی سے متعدد خوان مکلف چیزوں سے آراستہ روزانہ جامع مسجد میں بھیجے جاتے تھے، تاکہ روزہ داروں میں افطاری تقسیم کی جائے۔،اس کے علاوہ قلعہ کی تمام بیگمات اور شہر کے سب امراء علیحدہ علیحدہ افطاری کے سامان بھیجتے تھے، اس لئے ان خوانوں کی گنتی سیکڑوں تک پہنچ جاتی تھی۔ ریشمی رنگ برنگ کے خوان پوش اور ان پر مقیشی جھالریں ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر ہوتی تھیں اور مسجد میں ان کی عجب آرائش ہوجاتی تھی۔مرزا کے دل پر اس دینی چرچے اور شان و شوکت نے بڑا اثر ڈالا اور اب وہ برابر روزانہ مسجد میں آنے لگے۔
گھر گھر میں وہ دیکھتے کہ سیکڑوں فقراء کو سحری اور اول شب کا کھانا روزانہ شہر کی خانقاہوں اور مسجدوں میں بھجوایا جاتا تھا اور یہ دن ان کے گھر میں بڑی برکت اور چہل پہل کے معلوم ہوتے تھے۔ مرزا سلیم کے ایک بھانجے مرزا شہ زور نوعمر ی کے سبب اکثر اپنے ماموں کی صحبت میں بے تکلف شریک ہوا کرتے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ ایک تو وہ وقت تھا جو آج خواب و خیال کی طرح یاد آتا ہے اور ایک وہ وقت آیا کہ دہلی زیر و زبر ہو گئی۔ قلعہ برباد کردیا گیا۔ امیروں کو پھانسیاں مل گئیں۔ ان کے گھر اجڑ گئے۔ ان کی بیگمات ماما گیری کرنے لگیں اور مسلمانوں کی سب شان و شوکت تاراج ہوگئی۔ اس کے بعد ایک دفعہ رمضان شریف کے مہینے میں جامع مسجد جانے کا اتفاق ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ جگہ جگہ چولہے بنے ہوئے ہیں، سپاہی روٹیاں پکا رہے ہیں۔ گھوڑوں کا دانہ ڈالا جارہا ہے۔ گھاس کے انبار لگے ہوئے ہیں اور شاہجہاں کی خوبصورت اور بے مثل مسجد اصطبل نظر آتی ہے، پھر جب مسجد واگزاشت ہوگئی اور سرکار نے اس کو مسلمانوں کے حوالے کردیا تو رمضان ہی کے مہینے میں پھر جانا ہوا، دیکھا چند مسلمان میلے کچیلے پیوند لگے کپڑے پہنے بیٹھے ہیں۔ دو چار قرآن شریف کا پڑھ رہے ہیں اور کچھ اسی پریشان حالی میں بیٹھے وظیفہ پڑھ رہے ہیں ،افطاری کے وقت چند آدمیوں نے کھجوریں اور دال سیئو بانٹ دئیے، کسی نے ترکاری کے قتلے تقسیم کر دئیے۔ نہ وہ اگلا سا سماں، نہ وہ اگلی سی چہل پہل، نہ وہ پہلی سی شان و شوکت۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ بے چارے فلک کے مارے چند لوگ جمع ہیں۔
اس کے بعد آج کل کا زمانہ بھی دیکھا جب مسلمان چاروں طرف سے دب گئے ہیں۔ انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان تو مسجد میں نظر ہی کم آتے ہیں۔ غریب غرباء آئے تو ان سے رونق کیا خاک ہوسکتی ہے۔ پھر بھی غنیمت ہے کہ مسجد آباد ہے۔ اگر مسلمانوں کے افلاس کا یہی علم رہا تو آئندہ خبر نہیں کیا نوبت آئے۔ مرزا شہ زور کی باتوں میں بڑا درد اور اثر تھا۔ ایک دن میں نے ان سے غدر کا قصہ اور تباہی کا افسانہ سننا چاہا۔ آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور اس کے بیان کرنے میں عذر و مجبوری ظاہر کرنے لگے، لیکن جب میں نے زیادہ اصرار کیا تو اپنی دردناک کہانی اس طرح سنائی۔
جب انگریزی توپوں نے کرچوں اور سنگینوں نے حکیمانہ توڑ جوڑ نے ہمارے ہاتھ سے تلوار چھین لی، تاج سر سے اتار لیا، تخت پر قبضہ ہوگیا۔ شہر میں آتش ناک گولیوں کا مینہ برس چکا۔ سات پردوں میں رہنے والیاں بے چادر ہوکر بازار میں اپنے وارثوں کی تڑپتی ہوئی لاشوں کو دیکھنے نکل آئیں۔ چھوٹے بن باپ کے بچے ابا ابا پکارتے ہوئے بے یار و مددگار پھرنے لگے۔ حضور ظل سبحانی جن پر ہم سب کا سہارا تھا، قلعہ چھوڑ کر باہر نکل گئے، اس وقت میں نے بھی اپنی بوڑھی والدہ، کمسن بہن اور حاملہ بیوی کو ساتھ لے کر اور اجڑے قافلے کا سالار بن کر گھر سے کوچ کیا۔ ہم لوگ دورتھوں میں سوار تھے۔ سیدھے غازی آباد کا رخ کیا، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ راستہ انگریزی لشکر کی جولان گاہ بنا ہوا ہے، اس لئے شاہدرہ سے واپس ہوکر قطب صاحب چلے اور وہاں پہنچ کر رات کو آرام کیا۔ صبح آگے روانہ ہوئے۔ چھترپور کے قریب گوجروں نے حملہ کیا اور سب سامان لوٹ لیا ،مگر اتنی مہربانی کی کہ ہم کو زندہ چھوڑ دیا۔ وہ لق و دق جنگل، تین عورتوں کا ساتھ اور عورتیں بھی کیسی؟ ایک بڑھاپے سے لاچار، دو قدم چلنا دوبھر، دوسری بیمار حاملہ۔ تیسری دس برس کی نادان لڑکی۔ والدہ کہتی تھیں ’’الٰہی ہم کہاں جائیں،کس کا سہارا ڈھونڈیں، ہمارا تاج و تخت لٹ گیا، تو ٹوٹا بوریا اور امن کی جگہ تو دے۔ جنگل کے درخت بھی ہمارے دشمن ہیں، کہیں سایہ نظر نہیں آتا‘‘۔ بہن کی یہ کیفیت تھی کہ وہ سہمی ہوئی کھڑی تھی اور ہم سب کا منہ تکتی تھی۔ مجھ کو اس کی معصومانہ بے کسی پر بڑا ترس آتا تھا۔ آخر مجبوراً میں نے عورتوں کو دلاسا دیا اور آگے چلنے کی ہمت بندھائی۔ ایک گائوں سامنے نظر آیا، والدہ صاحبہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتی تھیں اور سر پکڑ کر بیٹھ جاتی تھیں اور جب وہ یہ کہتیں،’’تقدیر ان کو ٹھوکریں کھلواتی ہے جو تاجوروں کے ٹھوکریں مارتے تھے۔ قسمت نے ان کو بے بس کردیا جو بیکسوں کے کام آتے تھے، ہم چنگیز کی نسل ہیں جس کی تلوار سے زمین کانپتی تھی، ہم تیمور کی اولاد ہیں جو ملکوں کا اور شہر یاروں کا شاہ تھا۔ ہم شاہجہاں کے گھروالے ہیں، جس نے ایک قبر پر جواہر نگار بہار دکھا دی اور دنیا میں بے نظیر مسجد دہلی کے اندر بنادی۔ ہم ہندوستان کے شہنشاہ کے کنبہ میں ہیں۔ ہم عزت والے تھے۔ زمین میں ہمیں کیوں ٹھکانا نہیں ملتا، آج ہم پر آسمان روتا ہے‘‘۔
الغرض گرتے پڑتے گائوں پہنچے۔ یہ گائوں مسلمان میواتیوں کا تھا، انہوں نے ہماری خاطرکی اور اپنی چوپاڑ میں ہم کو ٹھہرا دیا۔
کچھ روز تو ان مسلمان گنواروں نے ہمارے کھانے پینے کی خبر رکھی اور چوپاڑ میں ہم کو ٹھہرائے رکھا، لیکن کب تک یہ بار اٹھا سکتے تھے، اکتا گئے اور ایک دن مجھ سےکہنے لگے کہ ’’میاں جی! چوپاڑ میں ایک برات آنے والی ہے تو دوسرے چھپر میں چلا جا اور رات دن بیکار بیٹھے کیا کرے ہے، کچھ کام کیوں نہیں کرتا‘‘۔ میں نے کہا ،’’بھائی! جہاں تم کہو گے وہیں جا پڑیں گے۔ ہمیں چوپاڑ میں رہنے کی ہوس نہیں، جب فلک نے عالی شان محل چھین لیا تو اس کچے مکان پر ہم کیا ضد کریں اور رہی کام کرنے کی بات تو میرا جی تو خود گھبراتا ہے، خالی بیٹھے بیٹھے طبیعت اکتائی جاتی ہےمجھے کوئی کام بتائو،ضرور کروں گا‘‘۔ ان کا چوہدری بولا ’’ہم نے کے بیرا (ہمیں کیا خبر) کہ تم کے کام (کیا کام) کرسکے ہے‘‘۔ میں نے جواب دیا ’’میں سپاہی زادہ ہوں۔ تیغ تفنگ چلانا میرا ہنر ہے، اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں جانتا‘‘۔ گنوار ہنس کر کہنے لگے ’’نہ بابا یہاں تو ہل چلانا ہوگا، گھاس کھودنی پڑے گی۔ ہم نے تلوار کے ہنر کیا کرنے ہیں‘‘۔ گنوار کے اس جواب سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور جواب دیا کہ ’’بھائیو! مجھ کو تو ہل چلانا اور گھاس کھودنی نہیں آتی‘‘۔ مجھ کو روتا دیکھ کر گنواروں کو رحم آگیا اور بولے ’’اچھا تو ہمارے کھیت کی رکھوالی کیا کر اور تیری عورتیں ہمارے گائوں کے کپڑے سی دیا کریں۔ فصل پر تجھ کو اناج دے دیا کریں گے جو تجھ کو برس دن کو کافی ہوگا‘‘۔ میں سارا دن کھیت پر جانور اڑایا کرتا تھا اور گھر میں عورتیں کپڑے سیتی تھیں۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ بھادوں کا مہینہ آیا اور گائوں میں سب کو بخار آنے لگا۔ میری اہلیہ اور بہن کو بھی بخار نے آن دبوچا۔ اُس گائوں میں، دوا اور حکیم کا کیاکام خود ہی لوٹ پیٹ کر اچھے ہوجاتے ہیں، مگر ہم کو دوائوں کی عادت تھی، سخت تکلیف اٹھانی پڑی۔ اسی حالت میں ایک دن اس زور کی بارش ہوئی کہ جنگل کا نالہ چڑھ آیا اور گائوں میں کمرکمر پانی ہوگیا۔ گائوں والے تو اس کے عادی تھے، لیکن ہماری حالت اس طوفان کے سبب مرنے سے بدتر ہوگئی۔ چونکہ پانی ایک دفعہ ہی رات کے وقت گھس آیا تھا، اس لئے ہماری عورتوں کی چارپائیاں بالکل غرق آب ہوگئیں اووہ چیخیں مارنے لگیں۔ آخر بڑی مشکل سے چھپر کی بلیوں میں دو چارپائیاں اڑا کر عورتوں کو ان پر بٹھایا۔ پانی گھنٹے بھر میں اتر گیا، مگر غضب یہ ہوا کہ کھانے کا اناج اور اوڑھنے بچھانے کے کپڑے تر کر گیا۔ پچھلی رات میری بیوی کے دردزہ شروع ہوا اور ساتھ ہی جاڑے سے بخار بھی ہوگیا، اس وقت کی پریشانی بیان کرنے کے قابل نہیں۔ اندھیرا گھپ، مینہ کی جھڑی، کپڑے سب گیلے، آگ کا سامان ناممکن۔ حیران تھے الٰہی کیا انتظام کیا جائے۔ درد بڑھنے شروع ہوئے اور بیوی کی حالت نہایت ابتر ہوگئی۔ وہ تڑپنے لگی اور تڑپتے تڑپتے جان دے دی ،چونکہ وہ ساری عمر ناز و نعمت میں پلی تھیں، غدر کی مصیبتیں ہی ان کی ہلاکت کے لئے کافی تھیں۔صبح ہوگئی، گائوں والوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے کفن وغیرہ منگوا دیا اور دوپہر تک یہ محتاج شہزادی گور غریباں میں ہمیشہ کے لئے جا سوئی۔
اب ہم کو کھانے کی فکر ہوئی، کیونکہ اناج سب بھیگ کر سڑ گیا تھا۔ گائوں والوں سے مانگتے ہوئے لحاظ آتا تھا۔ وہ بھی ہماری طرح اسی مصیبت میں گرفتار تھے۔تاہم بے چارے گائوں کے چوہدری کو خود ہی خیال آیااور اس نے قطب صاحب سے ایک روپے کا آٹا منگوا دیا۔ وہ آٹا نصف کے قریب خرچ ہوا ہوگا کہ رمضان شریف کا چاند نظر آگیا۔ والدہ صاحبہ ہر وقت گزشتہ زمانے کو یاد کیا کرتی تھیں۔ رمضان کا چاند دیکھ کر انہوں نے ایک ٹھنڈا سانس بھرا اور چپ ہوگئیں۔ میں سمجھ گیا کہ ان کو پچھلا زمانہ یاد آرہا ہے، ان سےتسلی کی باتیں کرنے لگا ،جس سے ان کو کچھ ڈھارس ہوگئی۔چار پانچ دن تو آرام سے گزر گئے، مگر جب آٹا ختم ہوگیا تو بڑی مشکل درپیش آئی۔ سوال کرتے ہوئے شرم آتی تھی اور پاس ایک کوڑی نہ تھی۔ شام کو پانی سے روزہ کھولا۔ بھوک کے مارے کلیجہ منہ کو آتا تھا۔والدہ صاحبہ کی عادت تھی کہ اس قسم کی تکلیف کے وقت بیان کرکے بہت رویا کرتی تھیں، مگر آج بڑے اطمینان سے خاموش تھیں۔ ان کی خاموشی و اطمینان سے میرے دل کو بھی سہارا ہوا اور چھوٹی بہن کو ،جس کے چہرے پر بھوک کے مارے ہوائیاں اڑ رہی تھیں، دلاسا دینے لگا۔ وہ معصوم بھی میرے سمجھانے سے نڈھال ہوکر چارپائی پر جا پڑی اور تھوڑی دیر میں سو گئی۔ بھوک میں نیند کہاں آتی ہے، بس ایک غوطہ سا تھا۔اس غوطہ اور ناتوانی کی حالت میں سحری کا وقت آگیا۔ والدہ صاحبہ اٹھیں اور تہجد کی نماز کے بعد جن دردناک الفاظ میں انہوں نے دعا مانگی، ان کا نقل کرنا محال ہے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا،ُ’’ہم نے ایسا کیا قصورکیا ہے ،جس کی سزا یہ مل رہی ہے۔ رمضان کے مہینے میں ہمارے گھر سے سیکڑوں محتاجوں کو کھانا ملتا تھا اور آج ہم خود دانے دانے کو محتاج ہیں اور روزہ پر روزہ رکھ رہے ہیں‘‘۔ ’’خداوند! اگر ہم سے قصور ہوا ہے تو اس معصوم بچی نے کیا خطا کی ہے، جس کے منہ میں کل سے ایک دانہ تک اڑ کر نہیں گیا‘‘۔
دوسرا دن بھی یونہی گزر گیا اور فاقہ میں روزہ در روزہ رکھا۔ شام کے قریب چوہدری کا آدمی دودھ اور میٹھے چاول لایا اور بولا ’’آج ہمارے ہاں نیاز تھی اور یہ پانچ روپیہ زکوٰۃ کے ہیں‘‘۔یہ کھانا اور روپے مجھ کو ایسی نعمت معلوم ہوئے گویا بادشاہت مل گئی۔ خوشی خوشی والدہ کے آگے سارا قصہ کہتا جاتا تھا اور خدا کا شکرانہ بھیجتا جاتا تھا ،مگر یہ خبر نہ تھی کہ گردش فلک نے مرد کے خیال پر تو اثر ڈال دیا، لیکن عورت ذات جوں کی توں اپنی قدیمی غیرت داری پر قائم ہے۔ میں نے دیکھا کہ والدہ کا رنگ متغیر ہوگیا۔ باوجود فاقہ کی ناتوانی کے انہوں نے تیور بدل کر کہا ’’تف ہے تیری غیرت پر، خیرات اور زکوٰۃ لے کر آیا ہے اور خوش ہوتا ہے، ارے اس سے مرجانا بہتر تھا، میدان میں نکل کر مرجانا یا مار ڈالنا اورتلوار کے زور سے روٹی لینا ہمارا کام ہے، صدقہ خوری ہمارا شیوہ نہیں ہے‘‘۔
والدہ کی ان باتوں سے مجھے پسینہ آگیا اورشرم کے مارے ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہوگئے، چاہا کہ اٹھ کر یہ چیزیں واپس کر آئوں، مگر والدہ نے روکا اور کہا ’’خدا ہی کو یہ منظور ہے تو ہم کیا کریں، سب کچھ سہنا ہوگا‘‘۔ یہ کہہ کر کھانا رکھ لیا اور روزہ کھولنے کے بعد ہم سب نے مل کر کھالیا۔ پانچ روپیہ کا آٹا منگوایا گیا۔ جس سے رمضان خیر و خوبی سے بسر ہوگیا۔
اس کے بعد چھ مہینے گائوں میں رہے۔ پھردہلی چلے گئے۔ یہاں آکر والدہ کا انتقال ہوگیا اور بہن کی شادی کردی۔ انگریزی سرکار نے میری بھی پانچ روپے ماہوار پینشن مقرر کردی تھی ،گزر اوقات ہونے لگی۔