• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

شہرت ملنے کے بعد گُم ہوتی جا رہی ہوں، مایا علی

شہرت ملنے کے بعد گُم ہوتی جا رہی ہوں، مایا علی

شوبز کی دنیا کا جانا پہچانا،نام مایا علی اس وقت شہرت کی بلندیوں پر ہے۔ فلمی دنیا میں ہلچل مچانے والی فلم،’’طیفا اِن ٹربل‘‘کے ساتھ مایا علی کے بھی چرچے ہیں۔لاہور میں پیدا ہونے والی ،مایا علی نے من مائل، درِشہوار،عون زارا اور ’’جیو ٹی وی‘‘ کے سیریل ’’اِک نئی سنڈریلا‘‘ سے ڈرامہ انڈسٹری میں شہرت حاصل کی۔ان کے کریڈٹ پر کھویا کھویا چاند، میری زندگی ہے تو، لاڈوں میں پلی، شناخت، ضد، میرا نام یوسف ہے، دیار دِل ، صنم اور کئی مقبول ڈرامے ہیں۔ مایا علی کو لکس گرل کا خطاب بھی دیا گیا۔ 

لائٹ اینگل فلم، مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ اور ’’جیوفلمز‘‘ کے تعاون سے پاکستان بھر میں ریلیز ہونے والی فلم ’’طیفا اِن ٹربل‘‘ سے مایا علی نے دُنیا بھر کے فلم بینوں کی توجہ حاصل کرلی ہے۔ یہ مایا علی کی ڈیبیو فلم ہے، جو پاکستان کے علاوہ دُنیا کے 25 ممالک میں بھی ریلیز کی گئی ہے۔ مایا علی کا اصل نام مریم تنویر ہے۔وہ مریم سے مایا کیسے بنیں؟والد کے سخت مزاج ہونے کے باوجود شوبز انڈسٹری میں کیسے آئیں؟یہ اور ان کی زندگی کے حوالےسے ہم نے گزشتہ دنوںان سےملاقات کی،انہوںنےاپنے بارے میں جو کچھ بتایا،وہ آپ بھی پڑھیں۔

شہرت ملنے کے بعد گُم ہوتی جا رہی ہوں، مایا علی

٭ … ’’طیفا اِن ٹربل‘‘ آپ کی ڈیبیو فلم ہے۔ پہلی بار آپ نے بڑے پردے پر کام کیا ہے، کیسا لگا؟

مایا علی … میں تو بہت زیادہ ڈر گئی تھی، اب تک جتنی بھی فلمیں آئی ہیں، اُن کا فیڈ بیک ملا جلا آتا ہے، کچھ لوگ فلم کا مذاق اُڑاتے ہیں، کچھ لوگ اچھے کام کو سراہتے ہیں، میں خود بھی اُن لوگوں میں شامل ہوں جو دوسروں کی غلطیوں کی نشاندہی کرتی ہوں۔ اب میری خود کی فلم آئی تو، مجھے بہت زیادہ ڈر لگاکہ نہ جانے لوگ اس فلم کو کس انداز سے لیں گے، تالیاں بجائیں گے یا پھر انٹرویل میں ہی اُٹھ کر چلے جائیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہواناظرین نے میرے کام کو پسند کیا۔

٭ … کیا ڈراموں میں کام کرتے وقت بھی ایسے ہی خوف محسوس کرتی ہیں؟

مایا علی … پہلےڈر لگتا تھا لیکن اب ڈرامہ انڈسٹری میں کافی کام کرلیا ہے،کافی پُر اعتماد ہوگئی ہوں۔ اب اتنا ڈر نہیں لگتا جتنا پہلے لگا کرتا تھا۔

٭ … طیفا اِن ٹربل میں کیسے منتخب ہوئیں؟

مایا علی … مجھ سےڈائریکٹرنے رابطہ کر کے، پوچھاتھا کہ ،کیا آپ اس فلم میں کام کریں گی۔ میںنے جواب دینے کے لیے وقت مانگاتھا۔میں سوچ میں پڑ گئی تھی لیکن جب میں نے سنا کہ اس فلم میں علی ظفر، جاوید شیخ، محمود اسلم جیسے بڑے نام ہیں تو پھر میں نے حامی بھر لی۔ دوست احباب نے بھی یہی مشورہ دیا کہ جب فلم کی کاسٹ اچھی ہے تو آپ کو ضرور کام کرنا چاہئے۔ فلم کا تجربہ انتہائی اچھا رہا۔ پہلی بار جب میرا علی ظفر کے ساتھ سین تھا تو میں کچھ زیاد ہی پُر اعتماد تھی، میں نے سوچا کہ یہ بھی ڈراموں کی طرح کرلوں گی،مگر ایسا نہیں ہوامیری زیادہ پُر اعتمادی نے مجھے ڈبونا شروع کردیا لیکن میں شکر گزار ہوں پوری ٹیم کی، خاص طور پر احسن رحیم اور علی ظفر کی، جب میں لائنیں بھول جاتی، گھبراہٹ کا شکار ہو جاتی توسب مجھ سے بھر پور تعاون کرتے،میری حوصلہ افزائی کرتے۔ مجھے لگتا ہے اگر اس فلم کو احسن رحیم ڈائریکٹ نہ کرتے تومیں جس انداز میں، اس فلم کے ذریعے بڑے پردے پر نظر آرہی ہوں ایسا بالکل نہیں ہوتا۔

٭ … اکثر ڈراموں میں آپ بالکل سیدھی سادھی نظر آتی ہیں، لیکن فلم میں ایسانہیں ہے؟

مایا علی … بات یہ ہے کہ، ڈراموں میں زیادہ آپشن نہیں ہوتے، ٹی وی اسکرین پر اداکاری الگ ہوتی ہے ،جب کہ بڑے پردے کیڈیمانڈبالکل مختلف ہوتی ہے،ویسے جو میں اصل زندگی میں ہوں وہ سب میں نے طیفا اِن ٹربل میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس فلم میں ، بہت چوٹیں بھی کھائی ہیں ، روئی بھی ہوں، ہنسی بھی ہوں اور اس محنت کانتیجہ وقت آنے پر سامنے بھی آگیا۔

٭ … ’’مریم تنویر‘‘ سے آپ ’’مایاعلی‘‘ کیسے ہوگئیں؟

مایا علی … میرانام مایا شوبز کی دنیامیں آنے سے پہلے ہی پڑ گیا تھا۔ میرا اصل نام ’’مریم‘‘ ہی ہے۔ہوا کچھ یوں کہ ،میں بہت زیادہ بیمار رہنے لگی تھی تو کچھ لوگوں نے کہا، اس کا نام تبدیل کردو۔ والد نے نام تبدیل کرنے سے منع کردیا، کیونکہ یہ نام دادی نے رکھا تھا۔ بہر حال وقت گزرتا گیا توگھرمیں کچھ نے مایا کہنا شروع کردیا اورکچھ نے مریم ۔میرے اکثر دوست مجھے آج بھی میرے نک نیم ’’مایا‘‘ سے پکارتے ہیں۔ جب میں نے شوبز کی دنیامیں قدم رکھاتو دوستوں نے مشورہ دیا کہ تم اپنانام ’’مایا‘‘ سے کام کا آغازکرو،مجھے نہیں معلوم تھا کہ مایا چلتے چلتے اس مقام تک پہنچ جائے گی۔

٭ …اپنےبچپن، اسکول اوراہل خانہ کے بارے میں بتائیں؟

مایا علی …مجھے اسکول کے دِن کوئی خاص تو یاد نہیں لیکن اتنا ضرور یاد ہےکہ جب میرا پلے گروپ میں داخلہ ہورہا تھا۔اس وقت میں بہت خوش تھی، نئے لوگ، نیا اسکول، نئے تحائف،البتہ اسکول کے حوالے سے والدہ بتاتی ہیں کہ میںدوسرے بچوںکی طرح اسکول جاتے وقت روتی نہیں تھی۔یہ بتادوںکہ میری اسکول میں دوستیں بہت کم تھیں۔نویں کلاس میں ایک لڑکی تھی عائشہ، وہ اب بھی میری دوست ہے، کالج لائف میں ایک دوست لائبہ تھی اس کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے،بس صرف یہ دو دوست ہیں باقی جو چند تھی،وہ سب بچھڑ گئیں۔ بہن کوئی نہیں ہے ۔ایک بھائی ہے،جومجھ سے پانچ سال چھوٹا ہے۔ میں شوبز انڈسٹری میں کئی بہنوں کی جوڑیاں دیکھتی ہوں تو میرا بھی دِل چاہتا ہے کہ میری بھی کوئی بہن ہوتی تو ہم دونوں انڈسٹری میں مل کر کام کرتے۔ ویسے ہم دونوں بہن بھائی کا مزاج بھی مختلف ہے۔بہت زیادہ لڑتے ہیں، وہ کہتا ہے تم غلط کررہی ہو، میں کہتی ہوں تم غلط کرتے ہو۔ ہم دونوں میں کافی بحث ہوتی ہے۔ لیکن جب اُسے کوئی ڈانٹتا ہے تو مجھے بہت غصہ آتا ہے۔

٭ … کیا آپ کے خاندان میں کوئی شوبز سے وابستہ ہے؟

مایا علی … نہیں۔ میری ددھیال میں سب خواتین پردہ کرتی ہیں، جبکہ ننھیال میں مکس ہیں۔ والد بہت سخت مزاج تھے، اُن کا کہنا تھا کہ اس کی تعلیم مکمل ہوتےہی اس کی شادی کردوںگا۔ پھر ہوایہ کہ میں نے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کرنے کے بعد ملازمت کی تلاش شروع کردی انٹرن شپ کے لیے۔ جیوچینل کے لاہوراسٹیشن گئی تو وہاں رپورٹنگ کے شعبےمیںمیراانتخاب ہوگا۔اس شعبے میں بہت انجوائے کیا۔ بہت انٹرویوز کئے، دلچسپ آرٹیکل لکھے۔ میں اِسی شعبے میں آگے بڑھنا چاہتی تھی لیکن والد نے پھر منع کردیا۔

٭ … کیا بچپن میں بہت زیادہ شرارتیں تھیں؟

مایا علی … جی ! بہت زیادہ شرارتی تھی اور آج بھی ہوں۔ بچپن میں لوگوں کے گھروں کی بیل بجا کر بھاگ جاتی تھی۔ جب لائٹ چلی جاتی تھی تو میں لوگوں کے گھروں کی بیل پر ٹیپ لگا دیتی تھی، جب لائٹ آتی تو اُن کی بیل بجتی رہتی تھی۔ لوگوں کو گھر کے ٹیلیفون سے مس کالز کرتی تھی والد ڈانٹتے تھے لیکن والدہ تو باقاعدہ تھپڑ مار دیتی تھیں ایک تھپڑ تو مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ والدہ میرے والد صاحب کو ’’تنویر‘‘ کہہ کر پکارتی تھیں، ایک دِن میں والدہ کے قریب بیٹھی تھی، جب والد صاحب سامنے سے گزرےتو میں نے زور زور سے کہنا شروع کردیا کہ تنویر، تنویر بات سنیں بس، پھرکیا تھا والدہ نے تھپڑ ماردیا اور کہا کہ اپنے والد کو ہمیشہ بابا کہہ کر پکارنا ۔میں نے بچپن بہت زیادہ انجوائے کیا ہے۔ 

الگ ہی دُنیا تھی، میری بہن نہیں تھی لہٰذا میرے پاس کئی گڑیاں تھیں، اُن سے میں اپنے دِل کی ہر بات شیئر کرتی تھی یا پھر شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر خود سے باتیں کرتی تھی ۔ اس کے علاوہ مجھے بلیاں پالنے کا شوق تھا لیکن والدہ کی وجہ سے مجھے اپنا شوق آہستہ آہستہ ختم کرنا پڑا۔

شہرت ملنے کے بعد گُم ہوتی جا رہی ہوں، مایا علی

٭ … آپ زندگی کے تمام فیصلے خود کرتی ہیں؟

مایا علی … دوسروں سے مشاورت ضرور کرتی ہوں لیکن حتمی فیصلہ خود ہی کرتی ہوں۔

٭ … کھیلوں سے دلچسپی ہے؟

مایا علی … باسکٹ بال، والی بالز میرے پسندیدہ کھیل ہیں، میں کچھ ٹوم بوائے ٹائپ تھی، اسکول میں آستینیں چڑھا کر پھرتی تھی۔ سائیکلنگ کا بھی شوق ہے۔اب تو بچپن اور جوانی کے شوق پورے نہیں ہورہے، ایسا لگتا ہے شہرت پانے کے بعد میں خود کہیں گم ہوتی جارہی ہوں۔ خوف آنے لگتا ہے۔

٭ … کس چیز سے زیادہ خوف آتا ہے؟

مایا علی … اپنوں کے کھو جانے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ گذشتہ برس میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد سے میری زندگی بالکل تبدیل ہوگئی، میں ڈر گئی ہوں، گھر سے باہر نکلتی ہوں تو انجانا سا خوف آتا ہے کہ شاید میں اب گھر والوں کو دوبارہ نہیں دیکھ پائوں گی۔ یہ خوف میرے دِل میں اتنا زیادہ بیٹھ گیا ہے جسے میں بہت نکالنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن نہیں نکال پاتی۔

٭ … کیا والد کو معلوم تھا کہ آپ کی پہلی فلم ’’طیفا اِن ٹربل‘‘ آرہی ہے؟

مایا علی … جی ہاں،اُنہیں معلوم تھا کہ میں اس فلم کیلئے کام کررہی ہوں۔

٭ … پہلی بار جب آپ نے ٹیلی ویژن پر کام کیا تو والد نے کیا کہا؟

مایا علی … بہت بُرا بھلا کہا، یہاں تک کہ مجھ سے بات کرنا بھی چھوڑ دی۔

٭ … پھر اجازت کیسے ملی؟

مایا علی … پہلی بار میں نے پی ٹی وی کا ایک شو کیا تھا اور والد کو نہیں بتایا تھا کہ میں پروگرام کی میزبانی کررہی ہوں۔ جب پروگرام دیکھا تو کچھ نہیں کہاخاموش رہے،پھرمیںجیو پر انٹرن شپ کررہی تھی، وہاں پی ٹی وی کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر آئے تھے۔ اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ کیا آپ پی ٹی وی کے ایک شو کی میزبانی کریں گی۔ میں نے منع کردیا کہ مجھے گھر والوں سے اجازت نہیں ملے گی۔ لیکن مجھے شوق بھی تو تھا، میں نے ہمت کرکے والد سے بات کی کہ مجھےٹی وی پرکچھ کرنا ہے، اُنہوں نےپھر سختی سے منع کردیا کہا،بالکل نہیں۔ جب میری والدہ کی شادی ہوئی تھی تو اُن سے کہا گیا تھا کہ تم شادی کے بعد ملازمت چھوڑ دو گی۔ میری والدہ مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ شادی کے بعد ملازمت چھوڑنا میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ 

والدہ کی یہ بات میرے دِل میں بیٹھ گئی تھی، میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے زندگی میں آگے جاکر کسی موڑ پر یہ نہیں کہنا کہ مجھے ایک موقع ملا تھا اور میں نے اس کا فائدہ نہیں اُٹھایا۔ میں سب کو بتائوں گی کہ یہ انڈسٹری ویسی نہیں ہے جیسا اس کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔ اچھے برے لوگ تو ہر شعبے میں ہوتے ہیں۔ بہر حال میں نے والد سے چھپ کر پی ٹی وی پر شو کی میزبانی کرلی، سوچا والد صاحب کون سا ٹی وی دیکھتے ہیں، وہ بھی عید پر۔ خیر! وہ ریکارڈڈ شو تھا، نشر ہواتو والد نے بلا یا اور پوچھا یہ کون ہے؟۔ میں نے صاف انکار کردیا کہ یہ لڑکی میں نہیں ہوں۔ والدکوغصہ آگیا اور کہاتم نہیں کروگی۔والدہ نے اُنہیں سمجھایا۔ تو وہ خاموش ہوگئے۔والدہ نے میرا بہت ساتھ دیا، کہابیٹا! آپ کو جو کرنا ہے کرو لیکن ہمارا اعتماد کبھی نہیں توڑنا۔ اُن کا اعتماد میں نے ہمیشہ برقرار رکھا اور ٹیلی ویژن پرکام کرنے لگی۔ایک دِن اداکاری کیلئے آڈیشنز ہوئے، میں نے سوچا کہ مجھے کون سا منتخب ہوجانا ہے لیکن کرکے دیکھ لینےمیںکیا حرج ہے ، آڈیشن دیا، اگلے ہی دِن فون آگیا کہ آپ کا ایک ڈرامہ سیریل کے لیے سلیکشن ہوگیا ہے۔ 

شہرت ملنے کے بعد گُم ہوتی جا رہی ہوں، مایا علی

گھر پر میں نے صرف شو کی میزبانی کا کہا تھا لیکن پھر ڈرامے کے لیے بھی حامی بھرلی۔ ڈرامہ کرلیا تو پھر کہا کیاتم ایک اور ڈرامے کی ہیروئن بنو گی؟۔ میں نے اس کیلئے حامی تو بھر لی لیکن شوٹنگ کے لیے مجھے لاہور سے باہرجانا تھا ۔ والد نے مجھے اجازت نہیں دی لیکن والدہ نے پھر میرا بھرپور ساتھ دیااور میں لاہورچلی گئی ،اس کے بعد میں نے کئی ڈراموں میں کام کیا ،لیکن والد نے مجھ سےتین سال تک بات نہیں کی۔ کئی لوگ آکر والد صاحب سے کہتے کہ آپ کی بیٹی نے فلاں ڈرامے میں بہت عمدہ کام کیا ہے، والد ہاں ہوں کر کے آگے بڑھ جاتے۔لوگ گلے لگا کر میری تعریفیں کرتے تھے، لیکن والد کا بات نہ کرنا، مجھےچین سے رہنے نہ دیتا،میں اندر ہی اندر گھونٹتی جارہی تھی کیونکہ جہاں سے مجھے اصل حوصلہ افزائیملنی تھی وہ نہیں مل ررہی تھی خیر، میں اس اُمید پر کام کرتی رہی کہ ایک دِن والد ضرور میری حوصلہ افزائی کریں گے۔ پھرایوارڈ شو کے لیے میری نامزدگی ہوئی لیکن ایوارڈ نہیں ملا۔ میں مایوس ہوکر گھر آئی، تو والد قریب آئے اور کہا مایوس نہ ہونا، اگلے ڈرامے میں تمہیں ضرور ایوارڈ ملے گا۔ اُن کی بات سن کر میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی میرے بس نہیں چل رہاتھا کہ میں فوراً اپنے باپ کو گلے سے لگا لوں لیکن بدقسمتی سے ہم نے کئی برس بات نہیں کی تھی لہٰذا ہمارے درمیان اتنا فاصلہ آگیا تھا کہ میں چاہ کر بھیاُن کےگلے نہیں لگ سکی۔ وقت گزرنے کے بعد اُن کی بات سچ ثابت ہوئی ڈراما سیریل ’’من مائل‘‘ میں مجھے ایوارڈ مل گیا۔ اُس وقت تک مجھے معلوم نہیں تھا کہ والد صاحب میرا یہ ڈرامہ بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ مجھے افسوس رہے گا کہ جب مجھے ایوارڈ ملا تو والددنیا میں نہیںتھے۔جب میں ایوارڈ وصول کرنے جارہی تھی اس وقت میری آنکھیں نم تھیں اور والدکا چہرہ ذہن میں گھوم رہا تھا۔ہمارےدرمیان فاصلے کم ہونا شروع ہوگئے تھے۔ مجھے اُن سے بہت سی باتیں کرنا تھیں لیکن زندگی نے موقع نہیں دیا۔ کاش کبھی وہ میرے خواب میں آئیں تو میں اپنے دِل کی بہت سی باتیں اُن سے کروں،مگر بہت سی چیزیں آپ کے بس میں نہیں ہوتیں، میں اُنہیں بہت زیادہ مس کرتی ہوں۔

٭ … کیا آپ نے اپنی پہلی فلم ’’طیفا اِن ٹربل ‘‘ کے بارے میں والد کو بتایا تھا؟

مایا علی … جی ہاں! مجھے یاد ہے آخری مرتبہ والد نے مجھ سے پوچھا تھا کہ ’’طیفا اِن ٹربل‘‘ میں تمہارا کیا کردار ہے، فلم کب آئے گی، اُسی دن میں فلم کی شوٹنگ کے لیے ترکی جارہی تھی، میں نے سوچا تھا کہ میں ترکی پہنچ کر اُنہیں فون پربتاؤں گی کہ یہاں پہنچ کر کیسا لگ رہاہے، فلم کی شوٹنگ کیسی ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ رات کو میںنے ترکی پہنچ کر، والد کو فون کیا لیکن اُن کا فون نہیں مل رہا تھا۔ میں اُن سے بات کرنے کے لیےبہت بے چین تھی ،تین چار گھنٹے بعد بھائی کا فون آیا، اُس نے کہا کہ والد صاحب اِس دُنیا میں نہیں رہے۔ اُن کا اچانک انتقال ہوگیاتھا۔آج میں سوچتی ہوں کہ میں جو کچھ بھی ہوں اپنے والد کی وجہ سے ہوں، فیصلے کرنے کی ہمت مجھ میں جو آئی ہے وہ والد کی وجہ سےآئی ہے۔

٭ … آپ کے والدکیا کرتے تھے؟

مایا علی … وہ بزنس مین تھے اپنے بچوں کیلئے بہت زیادہ کیئرنگ تھے۔ جو کرتے تھے درست کرتے تھے۔ لیکن بات یہ ہے کہ وہ اپنے جذبات اور احساسات کو اپنے لفظوں میں مجھے سمجھا نہیں پائے اور نہ میں اپنی باتیں اُنہیں سمجھا سکی۔ کبھی کبھی ایسا بھی لگتا ہے کہ شاید والد جان بوجھ کر مجھےبہت سی چیزوں سے روکتے تھے تاکہ میں دِل لگا کر ضد میں آکر اُس میں انوالو ہو جائوں اور بہتر سے بہترین کام کروں اور زندگی کے ہر امتحان میں کامیاب ہوں۔ شاید والد صاحب نے جان بوجھ کر مجھے اِن امتحانوں سے گزار کر مضبوط بنا دیا ہے۔ اب میں گھر کی بڑی ہوں، مجھ پر بہت سی ذمہ داریاں آگئی ہیں، جس کے لیے مجھے والد نے پہلے سے ہی تیار کردیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ میری زندگی میں چاروں طرف ہنسی، مذاق، مسکراہٹ، گھومنا، پھرنا اور گلیمرس ہے یہ صرف میں ہی جانتی ہوںکہ میں کتنی ٹوٹ پھوٹ کئی ہوں۔

شہرت ملنے کے بعد گُم ہوتی جا رہی ہوں، مایا علی

٭ … زندگی میں کسی چیز کی کمی ہے؟

مایا علی … خدا کا شکر ہے کسی چیز کی کمی نہیں ہے، اوپر والے نے مجھے میری توقعات سے زیادہ دیا ہے۔

٭ … کیااب دوست بنانے کا شوق ہے؟

مایا علی … مجھے لگتا ہے دوست بنانے کا وقت گزر چکا ہے، دوسروں پر اعتبار کرنے کا وقت گزرگیا ہے۔ زندگی نے اتنے زیادہ تلخ و شیریں تجربات سے گزارا ہے کہ اب حقائق کا سامنا کرنے کا وقت ہے ،دوست بنانے کا نہیں۔ میں لوگوں کوظاہری طور پرنہیں دیکھتی،اُن کے ساتھ کھڑے ہونا پسند کرتی ہوں،مغرور نہیںہوں،میں یہ بات اچھی طرح جانتی ہوں کہ جس ذات نے مجھے اتنا کچھ دیا ہے وہ ایک پل میں سب کچھ واپس بھی لے سکتا ہے۔آج جو کچھ میرے پاس ہے یہ ہمیشہ میرے ساتھ رہنے والا نہیں ہے۔ خدا کا خوف ہمیشہ میرے اندر رہتا ہے۔والد کے انتقال کے بعدمیری زندگی بالکل بدل گئی ہے۔ شاپنگ ، گھومنا پھرنا میرے لئے اہمیت نہیں رکھتا لیکن کوئی مجھ سے اپنے دِل کی باتیں شیئر کرے تو بہت اچھا لگتا ہے۔

٭ … میوزک کا شوق ہے؟

مایا علی … بہت زیادہ۔ ہینڈ فری واحد چیز ہے جو 24 گھنٹے میرے ساتھ رہتی ہے۔ جب مجھے کوئی افسردہ سین کرنا ہوتا ہے تو اپنا موڈ آف کرنے کے لیےغم زدہ گانے سنتی ہوں اورجب بہت زیادہ خوش ہوتی ہوں تو میوزک پر ڈانس کرتی ہوں۔

٭ … کھانے پینے کا بھی شوق ہے؟

مایا علی … بہت زیادہ نہیں ہے ، ڈائٹ کانشز ہوں، چھوٹا سا کیک کھا لوں تو عرصہ گزر جاتا ہے، دوسرے کیک کا ذائقہ چکھے،دیسی کھانے ،نہاری، بریانی وغیرہ شوق سے کھاتی بھی ہوں اور پکا بھی لیتی ہوں۔ کہ مجھےزیادہ ہوا بھی لگ جائےتو میں موٹی ہو جاتی ہوں، لہٰذا اپنی ڈائٹ کا بہت زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے۔ جو ذائقے میں بھول چکی ہوں انہیںیاد کرنا نہیں چاہتی۔ کبھی کبھی آئس کریم کھانے کا اچانک شوق اُٹھتا ہے، پھر خیال آتا ہے بہت سخت ورزش کرناپڑےگی یہ سوچ شوق ٹھنڈاکردیتی ہے۔روزانہ جم جاتی ہوں۔یہ بھی بتادوں،رومانٹک ہوں، بارش، ہوا، سورج کا ڈھلنا، نکلنا، چاند ستاروں سے باتیں کرنا، اچھا میوزک، اچھا موسم، خوبصورت جگہوں کو بہت انجوائے کرتی ہوں۔

٭ … کیسے لوگ اچھے لگتے ہیں؟

مایا علی … حساس لوگ اچھے لگتے ہیں، ضدی انسان بالکل پسند نہیں۔

٭ … کبھی کسی سے محبت ہوئی ؟

مایا علی … ہاں! ایک بار،لیکن جب کہا گیا تم اپنے آپ کو تبدیل کرلو تو پھر میں سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ میں کیوں کسی کے لیے اپنے آپ کو تبدیل کروں۔ جب کوئی آپ کی زندگی میں آکر آپ کو بدلنا چاہے تو وہ آپ کا نہیں ہوسکتا۔ محبت بہت خوبصورت رشتہ ہے، مجھے یقین ہے کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی آئے گا ، وہ مجھے اور، میرے احساسات کو سمجھے گا۔ میں جانتی ہوں کہ کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا لیکن کچھ تو ایسا ہوگا جو میرے دِل پر اثر کرے گا۔

٭ … کبھی کسی سے نفرت کی ہے؟

مایا علی … غصہ بہت آتا ہے،غصے میں چیزیں توڑنا شروع کردیتی ہوں، کئی فون کئی بار دیوار پر مار کر توڑ دیئے۔ نفرت کبھی کسی سے نہیں کی۔ اگر کوئی میری دِل آزاری کرے تو فوراً معاف کردیتی ہوں لیکن میری اس کمزوری سے کچھ لوگ فائدہ بھی اُٹھاتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو تھوڑی دیر میںٹھیک ہوجائے گی۔ مجھے پھول بہت پسند ہیں ، اگر ناراض ہو جاتی ہوں تو لوگ پھول سامنے لے آتے ہیں جنہیںدیکھ کر میںغصّہ بھول جاتی ہوں۔میری خواہش ہے کہ جب کوئی انسان میری زندگی میں آئے تو میرے چاروں طرف پھول بچھا دے۔ مجھے ہیرے کی انگوٹھی سے زیادہ پھول دینے والا پسند ہے۔

٭ … کب بہت زیادہ خوشی محسوس کرتی ہیں؟

مایا علی … جب کوئی آکر کہتا ہے کہ کاش اگر میری بیٹی ہو تو تم جیسی ہو۔ اگر کوئی بزرگ آکر میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے کہ بیٹا، مجھے تم پر فخر ہے،تو اسےاپنی کامیابی سمجھتی ہوں۔میں نے کبھی بڑے خواب نہیں دیکھے،میںنے تو کبھی یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ میں لکس گرل بنوں گی شہرت ملے گی۔ ماہرہ خان بہت سے پسندہیں اور وہ یادگار لمحہ تھا جب میں اُن کے ساتھ کھڑی ہوئی ، یہ سب میں نے کبھی نہیں سوچا تھا لیکن مجھے بہت کچھ ملا ہے۔ یہ بتادوں کہ والد کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہومجھے حتیٰ کہ میری والدہ کو بھی علم نہیں تھا کہ وہ کئی لڑکیوں کی شادیاں کرانا چاہتے تھے، کئی گھرانے اُن کے پیسوں سے چلتے تھے۔ میں چاہتی ہوں جو چیزیں وہ ادھوری چھوڑ کر گئے ہیں اُنہیں پورا کروں۔

٭ … مستقبل میں کیاکچھ کرنےکا ارادہ ہے؟

مایا علی … مجھے اپنا ریستوران بنانے کا بہت شوق ہے۔ اس کے علاوہ میں لاہور میں اپنا گھر بنائوں گی،میری والدہ کی خواہش ہے کہ وہ صبح کا اُبھرتا ہوا سورج اپنےگھرکے لان میں بیٹھ کر انجوائے کریں اور میں ایسا ہی گھر بناناچاہتی ہوں۔

تازہ ترین
تازہ ترین