وہ روتا پھرتا ہے۔ کہتا ہے مجھ سے دھوکہ ہو گیا۔ خود کو مظلوم ثابت کرنے کیلئے آنسو بھی بہا رہا ہے لیکن ان آنسوئوں کے پیچھے دھوکے کی ایک لمبی کہانی چھپی ہوئی ہے اور یہ دھوکہ نمائشی آنسو بہانے والے اس شخص کے خاندان نے خود اپنی قوم کے ساتھ کیا۔ اس شخص کا نام ہے فاروق عبداللہ، جو مقبوضہ جموں و کشمیر کا تین مرتبہ وزیراعلیٰ رہا۔ جب سے بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دفعہ 370اور 35اے ختم کرتے ہوئے مقبوضہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا ہے تو فاروق عبداللہ اور اس کا بیٹا عمر عبداللہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت نے کبھی دفعہ 370کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا کیونکہ اس کے ذریعہ فاروق عبداللہ کے باپ شیخ محمدعبداللہ نے مقبوضہ ریاست اور بھارت کے درمیان ایک ناجائز تعلق قائم کیا تھا، جس کا مقصد صرف اور صرف ریاست پر اپنے ذاتی اقتدار کو قائم رکھنا تھا۔ دفعہ 370دراصل بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔ شیخ عبداللہ نے کشمیریوں کو راضی رکھنے کے لئے 35اے بھی آئین میں شامل کرائی اور غیر ریاستی افراد کی طرف سے ریاست میں جائیداد خریدنے کا راستہ بند کر دیا۔ 370اور 35اے کا خاتمہ دراصل بھارتی ریاست کی طرف سے ان کشمیریوں کے ساتھ دھوکہ ہے جو بھارتی ریاست کے وعدوں پر اعتبار کر کے بھارتی آئین کے تحت حلف اٹھا کر اپنی قوم سے غداری کرتے رہے۔ شیخ محمد عبداللہ کو بانیٔ پاکستان قائداعظمؒ محمد علی جناح نے اپنی قوم کے ساتھ دھوکہ کرنے سے منع کیا لیکن اُس نے قائداعظمؒ کی بات نہ سنی اور نہرو کے ساتھ ملی بھگت کر کے کشمیریوں کو بھارت کا غلام بنا دیا۔ تاریخ نے قائداعظمؒ کو بار بار سچا اور شیخ محمد عبداللہ کو بار بار جھوٹا ثابت کیا۔ آج جب بھارت نے بطور ریاست اپنے آپ کو بھی جھوٹا اور دغا باز ثابت کر دیا ہے تو شیخ محمد عبداللہ اور اُس کے خاندان کا اصل کردار سامنے لانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس خاندان نے صرف کشمیریوں کو نہیں بلکہ پاکستان کو بھی دھوکہ دیا۔
شیخ محمد عبداللہ نے اپنی سوانح حیات ’’آتش چنار‘‘ میں علامہ اقبالؒ کے ساتھ ملاقاتوں کا ذکر تو کیا ہے لیکن قائداعظمؒ کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی اصل کہانی نہیں لکھی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کشمیریوں کی حالیہ تحریک آزادی کا باقاعدہ آغاز علامہ اقبالؒ نے 1931میں کیا تھا۔ 13جولائی 1931کو سرینگر میں مسلمانوں کی شہادت پر پہلا احتجاجی جلسہ اور جلوس علامہ اقبالؒ کی زیرِ قیادت 14اگست 1931کو باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں منعقد ہوا۔ اس جلسے جلوس نے کشمیری مسلمانوں کو ہمت و حوصلہ دیا اور 1932میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس معرض وجود میں آئی، جس کا مقصد ریاست سے ڈوگرہ راج ختم کر کے برٹش انڈیا سے الحاق کرنا تھا۔ یہ پہلو انتہائی قابل غور ہے کہ 1933میں شیخ محمد عبداللہ کی شادی اکبر جہاں نامی ایک خاتون سے ہوئی جو ایک برطانوی جاسوس لارنس آف عریبیہ کی سابقہ بیوی قرار دی جاتی ہے۔ اکبر جہاں کا باپ ہیری نیڈوز لاہور اور سرینگر میں نیڈوز ہوٹل کا مالک تھا۔ لاہور کے نیڈوز ہوٹل کی جگہ اب آواری ہوٹل بن چکا ہے۔ اسی ہوٹل میں ٹی ای لارنس آ کر ٹھہرا کرتا تھا اور کرم شاہ کے نام سے افغانستان کے امیر امان اللہ خان کی حکومت کے خلاف سازش کر رہا تھا۔ یہیں پر اس کی ملاقات اکبر جہاں سے ہوئی اور دونوں نے شادی کر لی۔ جب کلکتہ کے ایک اخبار ’’لبرٹی‘‘ نے لارنس آف عریبیہ کا بھانڈا پھوڑ دیا تو وہ واپس بھاگ گیا اور جاتے جاتے اکبر جہاں نے اُس سے طلاق لے لی۔ اکبر جہاں کی شیخ عبداللہ سے شادی ہوئی تو موصوف کے خیالات بدل گئے اور 1939میں انہوں نے مسلم کانفرنس چھوڑ کر نیشنل کانفرنس بنا لی۔ 1944میں قائداعظمؒ سرینگر گئے تو مسلم کانفرنس نے اُن کے لئے استقبالیے کا اہتمام کیا۔ شیخ عبداللہ نے قائداعظمؒ کو نیشنل کانفرنس کے استقبالیے میں بھی شرکت کی دعوت دیدی۔ قائداعظمؒ نے دونوں کی دعوت قبول کر لی لیکن شیخ عبداللہ کو ذاتی ملاقات میں سمجھایا کہ وہ کانگریس سے دور رہے اور تحریک پاکستان کا حصہ بن جائے۔ بقول کے ایچ خورشید ایک ملاقات میں قائداعظمؒ نے شیخ عبداللہ کو کہا کہ ’’عبداللہ تم دھوکہ کھائو گے، باز آ جائو اور مسلم کانفرنس کا ساتھ دو‘‘۔ اس مشورے پر شیخ عبداللہ چیخ اُٹھا اور اُس نے بیان دیا کہ ’’یہ جو باہر سے لوگ آتے ہیں اُنہیں کشمیر کی سیاست میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں، مسٹر جناح کو چاہئے کہ وہ کشمیر سے واپس چلے جائیں‘‘۔
جب پاکستان بن گیا تو قائداعظمؒ نے شیخ عبداللہ کے پاس ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور سردار شوکت حیات سمیت کئی نمائندے بھیجے لیکن شیخ عبداللہ ان سب سے بدتمیزی کے ساتھ پیش آتا رہا۔ اُس نے سردار شوکت حیات کو گرفتاری کی دھمکی دیدی اور کہا کہ میں تمہیں ایک خود مختار ریاست بنا کر دکھائوں گا۔ جب مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کی ایک نام نہاد دستاویز پر دستخط کر دیئے تو شیخ عبداللہ کی پوزیشن کمزور ہو گئی لیکن اُس نے نہرو کے ساتھ مل کر ریاست کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ وہ اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے نہرو کو یہ تاثر دیتا تھا کہ پاکستانی حکومت اُس کے ساتھ رابطے کر رہی ہے۔ 1952میں اُس نے نہرو کے ساتھ معاہدہ دہلی پر دستخط کئے اور یوں آئین کی دفعہ 370کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو اپنا علیحدہ پرچم رکھنے کی اجازت مل گئی۔ اس دوران شیخ محمد عبداللہ نے کچھ مزید اختیارات مانگے تو نہرو نے موصوف کو برطرف کر کے جیل میں بند کر دیا۔ جیل سے شیخ محمد عبداللہ نے پاکستانی حکومت کو خط لکھا کہ اُسے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ پاکستان کے حق میں فیصلہ دیدے گا۔ اس بلیک میلنگ کی وجہ سے جنوری 1958میں اُسے رہا کیا گیا لیکن اپریل 1958میں دوبارہ گرفتار کر کے اُس پر بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا جس میں چار پاکستانیوں کو بھی شریک جرم بنایا گیا۔ شیخ عبداللہ بھارت کو پاکستان کے نام پر بلیک میل کرتا رہا اور کشمیریوں کے سامنے آزادی کا ہیرو بنتا رہا اور پھر 1974میں اندرا گاندھی کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد دوبارہ وزیراعلیٰ بن گیا۔ 1982میں دنیا سے رخصت ہوا تو اُس کا بیٹا فاروق عبداللہ وزیراعلیٰ بن گیا۔ فاروق عبداللہ نے بھی ایک برطانوی خاتون سے شادی کی۔ فاروق عبداللہ کے بعد اُس کا بیٹا عمر عبداللہ مقبوضہ ریاست کا وزیراعلیٰ بن گیا۔ آج یہ خاندان اپنی آنکھوں میں آنسو لا کر دُہائی دے رہا ہے کہ بھارت سرکار نے ان کے ساتھ دھوکہ کر دیا جبکہ سچائی یہ ہے کہ اس خاندان نے اپنی قوم کے ساتھ دھوکہ کیا۔ اگر 1947میں شیخ عبداللہ اقتدار کی ہوس میں نہرو کا ساتھ نہ دیتا تو آج کشمیر آزاد ہوتا۔ وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ سید علی گیلانی، یاسین ملک، میر واعظ عمر فاروق، آسیہ اندرابی، شبیر شاہ اور دیگر حریت پسند رہنما ٹھیک تھے اور فاروق عبداللہ جیسے لوگ غلط تھے، جو آج بھی بھارتی آئین کے وفادار ہیں۔ فاروق عبداللہ کی رسوائی دراصل بھارت نواز کشمیریوں کی رسوائی ہے۔ دفعہ 370کا خاتمہ کشمیر کی تحریک آزادی کو مضبوط اور بھارتی ریاست کو کمزور کرے گا۔ مودی بھارت کا گوربا چوف ثابت ہو گا۔