صوبائی وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرافضل پیچوہو کے حلقہ انتخاب تعلقہ دوڑ کے گاؤںگوٹھ فقیر فیض محمد ہسبانی میں شوہر نے گھریلو ناچاقی کی وجہ سےغصے میں آکر اپنی 45سالہ بیوی گوہر خاتون کو بندوق سے فائر کرکے موت کے گھاٹ اتار دیااور موقع سے فرار ہوگیا۔تھانے کی حدود کے تنازعے کے باعث کئی روز گزرنے کے باوجود نہ تو ایف آئی آر کا اندراج ہوسکا اور نہ ہی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا جاسکا ہے۔
مقدمے کا اندراج نہ ہونے کے باعث پولیس نے ملزم کی گرفتاری کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔ پولیس کے مطابق مقتولہ کا کوئی وارث بھی رپورٹ کے اندراج کے لیے نہیں آیا جب کہ اس قتل کی اطلاع محلے والوں نے دی تھی جس کے بعد پولیس نے موقع واردات پر پہنچ کر مقتولہ کی لاش اپنی تحویل میں لے کر اسپتال پہنچایا۔ محلے کے لوگوں نے بتایا کہ جب وہ اس قتل کی اطلاع دینے کے لیے دوڑ تھانے گئے تو وہاں کے اہل کاروں نے کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے انکار کردیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ واردات سٹھ میل پولیس اسٹیشن کی حدود میںہوئی ہے۔ جب وہ لوگ سٹھ میل تھانےگئے تو وہاں موجود افسران نے مذکورہ علاقے کو دوڑ تھانے کی حدود قرار دیا۔
جس کی وجہ سے مقتولہ کی لاش کئی گھنٹے تک جائے وقوعہ پر پڑی رہی ۔ پولیس کے اعلیٰ افسران کو جب اس قتل کی اطلاع ملی تو انہوں نے، حدود کا تعین کرتے ہوئے جائے واردات کو سٹھ میل تھانے کی حدود قرار دیا اور تھانہ انچارج کو ایف آئی آر کے اندراج کی ہدایت کی۔جس کے بعد سٹھ میل تھانے کے اہلکار وں نے مقتولہ کی لاش اپنی تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال پہنچائی لیکن وہاں لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں تھی۔ اسپتال کے عملے سے معلوم ہوا کہ اس اسپتال میں ایک ہی لیڈی ڈاکٹر ہے اور وہ بھی 42روز کی رخصت پر ہے۔
مقدمے کے اندراج کے بارے میں سٹھ میل تھانے کے ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ رپورٹ لکھوانے کے لیے مقتولہ کا کوئی رشتہ دار بہ طور وارث سامنے نہیں آیا ہے جس کی وجہ سے مقدمہ کے اندراج میں تاخیر ہورہی ہے، اور قاتل پولیس کی دست برد سے محفوظ ہے۔سٹھ میل تھانے کے اہل کاروں کےمطابق جب وہ گوہر خاتون کی لاش اٹھاکر تعلقہ اسپتال دوڑ پہنچے تووہاں معلوم ہوا کہ لیڈی میڈیکو لیگل آفیسرچھٹیوں پر ہیں اور کوئی دوسری لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں ہےجس کی وجہ سے پوسٹ مارٹم ہونا ناممکن ہے۔اسپتال کے عملےنے اہلکاروں کو لاش باندھی کے اسپتال لے جانے کا مشورہ دیا۔
اس سلسلے میں طرفہ تماشایہ بھی تھا کہ قتل ہونے والی خاتون کےوالدین اور دیگر قریبی رشتہ دار بھی علاقہ میں موجودنہیں ہیں ، جس کی وجہ سے اُنہیں گوہر خاتون کے قتل کی اطلاع نہیں دی جاسکی۔ پولیس اس لاش کو گائوں ہسبانی سے تعلقہ اسپتال دوڑ اور پھروہاں سے تعلقہ اسپتال باندھی لے کو گھومتی رہی لیکن اس کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوسکا۔ بدنصیب عورت کی لاش اب تک لاوارث حالت میں سرد خانے میں پڑی ہے ۔ ایک طرف اس کے ورثاء کے سامنے نہ آنے کی وجہ سےاب تک مقدمہ درج نہیں ہوسکا دوسری طرف پوسٹ مارٹم نہ ہونے کی وجہ سے اس کی لاش بھی تجہیز و تکفین سے محروم ہے۔
اس سلسلے میں تعلقہ اسپتال دوڑ کے میڈیکل سپرٹنڈنٹ ،ڈاکٹر امیر علی عباسی نےنمائندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسپتال کی لیڈی میڈیکو لیگل آفیسر42 روز کی رخصت پر ہیں اور اُن کی چھٹی کو پندرہ دن گزر چکے ہیں۔ گوہر خاتون کےپوسٹ مارٹم کے معاملے کے بارے میں اُن کا کہنا تھا انہوں نے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر معین الدین شیخ سمیت دیگر اعلیٰ حکام کوتحریری رپورٹ بھیج کر اس واقعے سے آگاہ کردیا ہے جب کہ ان سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ اسپتال میں متبادل لیڈی ڈاکٹر کی تعیناتی کا انتظام کریں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لیڈی میڈیکو لیگل آفیسر کی عدم موجودگی کے باعث اسپتال میں آنے والےاس قسم کے کیسز میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جواب میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر معین الدین نے اسپتال کے لیے جلد از جلد لیڈی ڈاکٹر بھیجنےکی یقین دہانی کرائی لیکن اس کی تعیناتی اب تک عمل میں نہیں آئی ہے۔
تعلقہ اسپتال دوڑ میں لیڈی ڈاکٹر کی عدم موجودگی محکمہ صحت کی کارگردگی پر سوالیہ نشان ہے۔جب تعلقہ اسپتال میں لیڈی ڈاکٹر ہی موجود نہیں تو سیکڑوں بیمار خواتین کا علاج کون کرے گا۔ اس سلسلے میں اس حلقے سے منتخب ہونے والی صوبائی وزیرصحت ،ڈاکٹر عذرافضل پیچوہو کی جانب سے فوری طور سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔