حکومت اور اپوزیشن کی پارلیمانی مشاورتی کمیٹی برائے قانون سازی نے آرمی ایکٹ میں ترامیم کو اتفاق رائے سے منظور کرنے پر اتفاق کرلیا۔
وفاقی وزیر پرویز خٹک کی سربراہی میں وفاقی وزراء اور قومی اسمبلی و سینیٹ میں اپوزیشن ارکان پر مشتمل 33 رکنی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔
اجلاس کے دوران طے پایا کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کل پہلے قومی اسمبلی اور پھر وہاں سے منظوری کے بعد سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔
اجلاس سے قبل وزیر دفاع پرویز خٹک کی قیادت میں حکومتی وفود نے پہلے مسلم لیگ (ن) کے اراکین اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی تھیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت سے متعلق قانون سازی کے سلسلے میں حکومتی وفد ن لیگ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپوزیشن لیڈر کے چیمبر پہنچا تھا۔
لیگی قیادت کا پیغام ملنے کے بعد لیگی اراکین نے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی غیر مشروط حمایت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
دوسری جانب حکومتی وفد نے اسلام آباد کے زرداری ہاؤس میں چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی۔
اس دوران چیئرمین پی پی پی نے انہیں باور کروایا تھا کہ پیپلزپارٹی جمہوری قانون سازی کو مثبت طریقے سے کرنا چاہتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ سیاسی جماعتیں قانون سازی کے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھنا چاہتی ہیں، جتنی اہم قانون سازی ہے، اتنا ہی اہم ہمارے لیے جمہوری عمل کی پاسداری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اس معاملے پر دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے گی۔
ایک روز قبل وزیرِاعظم کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دے دی گئی۔
اس کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے حکمِ امتناع مانگ لیا۔
آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن
یاد رہے کہ رواں برس 19 اگست کو وزیراعظم عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف مزید 3 سال کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
بعد ازاں ریاض حنیف راہی کی جانب سے اس نوٹیفکیشن کی معطلی سے متعلق درخواست سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی تھی۔
26 نومبر کو سماعت کے دوران درخواست گزار کی جانب سے جب درخواست واپس لینے کی درخواست جمع کروائی گئی تو چیف جسٹس نے اسے 184(3) کے تحت ازخود نوٹس میں تبدیل کردیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے مذکورہ ازخود نوٹس پر سماعت کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے جاری کردہ نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا۔
بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر مشاورت کے لیے ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔
ہنگامی اجلاس میں وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے سینئر اراکین اور لیگل ٹیم کو طلب کیا تھا، آرمی چیف اجلاس میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر وزیراعظم ہاؤس پہنچے تھے۔
27 نومبر کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اہم مشاروتی اجلاس ہوا، جس میں وزیراعظم کی قانونی ٹیم نے شرکت کی تھی، اس دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے نیا مسودہ تیار کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 28 نومبر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کرنے کا حکم دیا تھا۔