• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اپنے اچھے کاموں کے باعث لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں اور امر ہو جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک شخصیت حکیم محمد سعید کی تھی جو اپنے عظیم کارناموں کے باعث نہ صرف پاکستان بلکہ برصغیر میں ایک عظیم شخصیت کے طور پر ابھرے۔ گزشتہ دنوں حکیم محمد سعید کے 100ویں یومِ پیدائش کے موقع پر ان کے ادارے ہمدرد فائونڈیشن نے ’’حکیم سعید ایوارڈ‘‘ تقریب کا انعقاد کیا جو کراچی کی پہچان مہاتا یا موہٹہ پیلس میں منعقد کی گئی تھی۔ جب اس تقریب کا دعوت نامہ موصول ہوا تو اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر میں نے تقریب میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ ’’موہٹہ پیلس‘‘ جو فاطمہ جناح کی آخری قیام گاہ تھی، کو حکیم سعید کی سالگرہ تقریب کی مناسبت سے بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا اور عمارت دلکش منظر پیش کررہی تھی۔ تقریب کے داخلی راستے پر حکیم سعید کے قد آور پینا فلیکس جا بجا آویزاں تھے اور اسٹیج کو بڑی خوبصورتی اور پُروقار طریقے سے سجایا گیا تھا جہاں مختلف مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات بڑی تعداد میں موجود تھیں۔

حکیم سعید نہ صرف ایک مایہ ناز حکیم بلکہ ممتاز اسکالر، مخیر شخصیت اور گورنر سندھ بھی تھے۔ وہ حکیم ہونے کے ساتھ مایہ ناز مصنف بھی تھے اور اُنہوں نے مذہب اور طب پر 200سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ خدمات کے صلے میں حکومت نے انہیں ’’ستارہ امتیاز‘‘ سے نوازا۔ حکیم سعید 1920میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ وہ 5بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور باپ کی وفات کے بعد شعبہ طب سے وابستہ بڑے بھائی نے ان کی تربیت و پرورش کی۔ حکیم سعید نے شعبہ طب میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد طب کے شعبے میں پریکٹس شروع کی جو دن بدن ترقی کرتی گئی تاہم قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے کامیاب مطب کو چھوڑ کر اپنی اہلیہ اور بیٹی سعدیہ کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے۔ ہجرت کے وقت ان کی والدہ جو ان سے بہت محبت کرتی تھیں، نے اپنا تکیہ نشانی کے طور پر بیٹے کو دیا۔ پاکستان آکر حکیم سعید نے اپنا پیشہ جاری رکھنے کیلئے کراچی میں آرام باغ کے علاقے میں 12روپے ماہانہ پر ایک کمرہ کرائے پر لیا اور دروازے پر اپنے ہاتھ سے ’’ہمدرد مطب‘‘ لکھ کر مطب کی بنیاد رکھی۔

حکیم سعید اپنی ماں کی دی ہوئی نشانی ’’تکیہ‘‘ پر ہی سویا کرتے تھے۔ ایک دن جب تکیہ کا غلاف دھونے کیلئے اتارا گیا تو تکیے کے اندرونی حصوں سے کچھ پیسے برآمد ہوئے جو اُس زمانے میں ایک بڑی رقم تصور کی جاتی تھی۔ بعد میں حکیم سعید نے اس رقم سے اپنے دواخانے کو وسعت دی۔ اللہ نے حکیم سعید کے ہاتھ میں شفا دی تھی اور ان کا مطب ترقی کی منازل طے کرتا گیا اور حکیم سعید پاکستان کی جانی پہچانی شخصیت بن گئے۔ بینظیر دورِ حکومت میں اُنہیں گورنر سندھ کے عہدے پر فائز کیا گیا مگر سرکاری عہدہ رکھنے کے سبب مریضوں کی خدمت نہ کرنے کے باعث کچھ ماہ بعد ہی اُنہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور دوبارہ سے لوگوں کی خدمت میں مشغول ہو گئے۔ اُنہوں نے ہمدرد دواخانہ، ہمدرد فائونڈیشن اور ہمدرد یونیورسٹی جیسے ادارے قائم کئے۔ 1998میں جب کراچی کے حالات انتہائی خراب تھے، شہر میں جنگل کا قانون تھا اور بوری بند لاشیں ملنا معمول کی بات تھی، 17اکتوبر کو جب حکیم سعید آرام باغ میں واقع اپنے مطب میں مریضوں کو دیکھ کر باہر نکل رہے تھے تو دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے انہیں شہید کردیا۔ وہ اس وقت روزے کی حالت میں تھے کیونکہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ دوا کے ساتھ اللہ کی رضا بھی شامل ہونا چاہئے۔ اتنے بڑے سانحہ کے بعد نواز شریف حکومت نے ایم کیو ایم لندن سے اتحاد ختم کر کے سندھ میں گورنر راج نافذ کردیا اور قتل میں ملوث دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا اعلان کیا۔

’’حکیم سعید ایوارڈ‘‘ کی منفرد بات یہ ہے کہ یہ ایوارڈ مختلف شعبوں میں کارنامے انجام دینے والوں کو دیا جاتا ہے جس کے ساتھ ایک ملین روپے کی رقم بھی ہوتی ہے۔ گزشتہ سال ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں انور مقصود، ادیب رضوی اور بہادری پر خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے سرفراز احمد بھی شامل تھے۔ اِس سال ایوارڈ پانے والوں میں اسکوائش لیجنڈ جہانگیر خان، ہاکی لیجنڈ سہیل عباس، تعلیم کے شعبے میں مشتاق چھاپڑا، جرنلزم میں عمران اسلم، لٹریچر پر مستنصر حسین تارڑ، پرفارمنگ آرٹ ثمینہ اسلم، فلاح و بہبود میں ماسٹر ایوب، سوشل آئیکونک ورک پروین سعید، طاہرہ قاضی شامل ہیں جبکہ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ معین اختر مرحوم کو دیا گیا۔ حکیم سعید صوفی کلام سے بہت رغبت رکھتے تھے۔ اس لئے تقریب میں قوالی کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ تقریب کے اختتام پر حکیم سعید شہید کی صاحبزادی سعدیہ راشد نے مجھے حکیم سعید کے اقوالوں پر مبنی کتاب ’’اقوال سعید‘‘ پیش کی جو میرے لئے کسی اثاثے اور اعزاز سے کم نہیں۔ انہی اقوالوں میں سے کچھ اقوال آج قارئین سے شیئر کررہا ہوں۔ ’’پاکستان کو حاصل کرنے کیلئے اگر جدوجہد کرنا ضروری تھی تو اس کو مضبوط و مستحکم بنانے کیلئے بھی جدوجہد بہت ضروری ہے‘‘۔ ایک اور جگہ انہوں نے تحریر کیا کہ ’’قلم بہت مقدس ہے، اس سے سچ کے سوا کچھ نہیں لکھنا چاہئے۔‘‘ آپ ایک بہتے ہوئے پانی کی طرح بنیں جو اپنا راستہ خود بناتا ہے، ایک پتھر نہ بنیں جو راستے کی رکاوٹ بن جائے۔‘‘حکیم سعید کی بیٹی سعدیہ راشد، نواسیوں ڈاکٹر ماہم، فاطمہ الزہرا اور آمنہ ہمایوں کو میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ وہ اتنی عظیم شخصیت کی بیٹیاں ہیں اور اپنے باپ اور نانا کا جو نام روشن کررہی ہیں، شاید کوئی بیٹا بھی نہ کرسکے۔

تازہ ترین